گھر کو برباد کیا اُس نے بے دردی کے ساتھ

محبتوں کی ساری اٹھان کالعدم سی ہونے لگتی ہے، چاہتوں سے منسوب تمام تر رُتیں مسموم ہو کر رہ جاتی ہیں اور الفتوں پر مشتمل تمام تعلقات کی فضا کو مکدر ہونے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ جب غلط فہمی اور بد اعتمادی کے آکٹوپس دلوں کو جکڑ لیں تب کسی بھی محبت کدے کو اجاڑ کر غم کدہ بننے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔غلط فہمیوں کے آزار بنا کسی چاپ اور آہٹ کے دل و دماغ کو اپنا مسکن بنا کر تمام تر عقل و شعور کو مصلوب کر ڈالتے ہیں۔ پھر ریشم و اطلس پر محوِ استراحت لوگوں کو بھی آلام کے بھنور اور گرداب میں غرق ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔یہ چنڈال بد اعتمادی اتنی خوں خوار ہوتی ہے کہ کسی بھی آنگن میں اترے مانوس اور منزہ رشتوں کو بھسم کر ڈالتی ہے۔
وہ محبتوں کے گوشواروں سے لدی پھندی ایک جوڑی تھی جو خاندان بھر میں چاہتوں کا استعارہ بن چکی تھی۔ مَیں انھیں بڑے قریب سے جانتا ہوں کہ گاؤں بھر کے لوگ ان کی بے مثل چاہتوں کو بہ طورِ تمثیل بیان کرتے تھے۔ دو عشروں پر محیط اس محبت میں بذلہ سنجی بھی تھی اور فراست بھی، بیس برسوں پر مشتمل اس تعلق میں کھنکتی مسکراہٹوں کے شگوفے بھی کِھلے تھے اور دل ربا اور درخشندہ قربتوں کا اظہارِ اسلوب بھی سب سے نمایاں تھا۔
جانے وہ کون سا منحوس لمحہ تھا کہ بے اعتمادی نے اس خاتون کے گمان اور گیان پر تسلط جما کر تمام تر چاہتوں کے بخیے ادھیڑنا شروع کر دیے اور آپ جانیں کہ بے اعتمادی کسی بھی تعلق میں دَر آئے تو پھر بد کلامی اور بدزبانی کی خود رو جھاڑیاں اگتی چلی جاتی ہیں اور اگر ان زہریلی جڑی بوٹیوں کو بر وقت تلف نہ کیا جائے تو پھر یہ ہرے بھرے گلشن کو یوں چاٹ کھاتی ہیں کہ سب کچھ ہی نیست و نابود ہو کر رہ جاتا ہے۔
بے یقینی، بے مروتی اور بد اعتمادی کی غلیظ دلدل میں دھنسی خاتون اس سے باہر نکلنے پر آمادہ ہی نہیں تھی۔ تمام تر کاوشیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔اعزہ و اقارب نے یہ گتھی سلجھانے کی بہت سی کوششیں کیں مگر عورت کے ترش مزاج اور آگ اگلتی زبان میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ خاتون کے بھائی بہن اسے سمجھانے کے بجائے اس کے حمایتی اور معاون بن گئے اور ایک مثالی رشتے کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کرنے لگے۔ تمام تر حلفیہ بیانات کے باوجود اتہامات و الزامات کا بے مہابا سلسلہ جاری تھا۔ ہر طرح کی یقین دہانی نامراد ثابت ہو چکی تھی۔چار سالوں تک خاتون نے ایک محبت آمیز تعلق کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں تھیں۔ خرخشے بڑھتے گئے، تنازعات اور عناد و کد بڑی بھونڈی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ خاتون کی زبان تمام حدود و قیود کو پھاندتی چلی گئی۔ وہ بد زبانی سے گالم گلوج پر اتر آئی اور اسے کے بعد اپنے ہی سہاگ کو کوسنے اور بد دعائیں دینے لگی۔ تعلقات اور رشتے کی جو نزہت اور پاکیزگی تھی وہ بالکل دھندلا چکی تھی۔ سرمدی اور چمپئی ساعتوں کی جگہ مناقشات پر مشتمل تیرگیاں اپنے پنجے گاڑ چکی تھیں۔ زیست میں ایک ایسا بھونچال آ چکا تھا جو تھم جانے پر کسی طور آمادہ نہیں تھا۔ وہ سات جماعتیں پاس ایک خاتون تھی جو اپنے ایم اے پاس شوہر کو جاہل اور ذلیل انسان کَہ کر مخاطب کرنے لگی تھی۔ اس کی ساری ہفوات یہاں لکھنے کے قابل ہی نہیں۔ اسے احساس زیاں کا رتی بھر احساس نہیں تھا۔ گھر کی فضا میں گھٹن کا احساس حد درجہ بڑھ چکا تھا، اسے اپنے تین بچوں کے مستقبل کی کچھ پروا نہیں تھی۔ دو بچے تو بلوغت میں قدم رکھ چکے تھے۔ اس کی آنکھوں پر ایسی چربی چھائی تھی کہ وہ راست اور مستقیم راہوں کی طرف لوٹنے پر تیار نہیں تھی۔صعوبتیں حد سے گزرنے لگیں تو پھر خاوند نے اسے ایک طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا کہ شاید وہ طلاق کے لفظ سے ہی خائف ہو کر حروفِ اعتذار اپنے لبوں پر لے آئے مگر ایک طلاق کے بعد وہ مزید وحشی اور جنونی ہو گئی۔ خاوند نے آٹھ ماہ بعد دوسری طلاق بھی دے ڈالی۔ خاتون مزید پھنکارنے لگی کہ مجھے تیسری طلاق کر ٹنٹا ختم کر ڈالو۔چھے ماہ بعد خاوند نے تیسری طلاق اس کو تھما دی.
آج اس واقعے کو گیارہ ماہ گزر چکے ہیں۔تنہائی کی اذیت کے مرگھٹ پر تلخ سانسیں لیتی اس خاتون نے اپنی ویڈیو بنا کر اپنے سابق شوہر کے پاس بھیجی ہے۔آنسوؤں میں لتھڑے اس کے الفاظ اس کے بے چارگی اور بے بسی پر نوحہ کناں ہیں۔میں درجنوں بار اس ویڈیو کو دیکھ چکا ہوں۔ اس کے الفاظ میری سماعتوں سے ٹکراتے ہیں تو مجھے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ تمام احادیث یاد آنے لگتی ہیں جو اپنی زبان کی حفاظت اور خاوند کے وقار اور احترام کے سلسلے میں احادیث کی کتب میں موجود ہیں۔ جان کاہ عذاب میں مبتلا خاتون کَہ رہی ہے:-
” مَیں نے جو آپ سے بدتمیزی کی تھی، گالیاں دی تھیں، ان کے لیے مَیں آپ سے معذرت کرتی ہوں۔جو اپنے منہ سے گندے الفاظ ادا کیے تھے، وہ معاف کر دینا، میری زندگی تو موت سے بدتر بن گئی ہے“
اپنی فاش غلطیوں کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہو تو چنداں فائدہ نہیں ہُوا کرتا۔ مدقوق اور مسموم راستوں پر چلتے چلتے کبھی توقف کر کے اپنے طرزِ عمل اور گفتار و کردار پر یہ نظرِ ثانی ضرور کر لینی چاہیے کہ کہیں مَیں ہی غلطی پر تو نہیں ہوں۔اب مزید کتنے خوں چکاں مسائل اس خاتون کے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ احساس رفتہ رفتہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگا ہے۔ مگر اب تو بدکلامی اور بد زبانی کی چِیلیں اور گِدھیں ایک توانا رشتے کی بوٹیاں اس نوچ چکی ہیں کہ واپسی کی راہیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہیں، مگر وہ خواتین جو آج بھی اپنی زبان کو دراز کرنے کے سبب اپنے گھر کو جہنم کدہ بنائے ہوئے، وہ ضرور ان سفاک رتوں سے خود کو بچا سکتی ہیں۔آخر میں ایک تازہ غزل۔
اپنے بچوں پہ کوئی رنج نہ آنے دوں گا
ان کو معیوب کسی رہ پہ نہ جانے دوں گا
یہ وفا، طرزِ تکلم، یہ مروت یہ حجاب
ایک بھی نقشِ کہن اب نہ مٹانے دوں گا
تم جو منسوب رہے مجھ سے ہمیشہ ہم دَم
قربتیں جتنی بڑھاؤ گے، بڑھانے دوں گا
دل سے جاتے ہوئے یہ بات بھی دل میں رکھنا
لوٹ کر پھر کبھی دل میں نہیں آنے دوں گا
مت انا اس کو سمجھ، یہ ہے محبت کا اصول
تم بھی جاؤ گے، تمھیں شوق سے جانے دوں گا
گھر کو برباد کیا اُس نے بے دردی کے ساتھ
اب وہ آیا بھی تو گھر میں نہیں آنے دوں گا
بے وفائی کی جو تاویل کرے گا، اُس کو
مَیں تو ” غدارِ محبت “ ہی کے طعنے دوں گا
ہے محبت کا یہ آسان سا مفہوم حیات!
اُس کی آنکھوں میں کبھی اشک نہ آنے دوں گا

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ مولود کعبہ ہیں؟