سوال (5163)

جنات کی بری نظر گھر میں پڑی چیزیں غائب ہو جاتی ہیں، کیسے علاج ممکن ہے، کوئی دعا بتا دیجیے؟

جواب

یہ بات اگر واضح ہوگئی ہے کہ جنات وہاں ہیں، یا جنات کی بری نظر پڑ گئی ہے تو ایسا کریں کہ سورۃ البقرہ پڑھیں، پانی کا چھڑکاؤ کریں، آیۃ الکرسی پڑھیں، کمروں میں اذان دیں، ان شاءاللہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ آپ اپنا تعلق اپنے رب ذوالجلال والاکرام سے ٹھیک کریں سارے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔
قرآن کریم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں گناہوں سے توبہ کریں گھر میں خلاف شرع چیزیں موجود ہیں تو انہیں جتنی جلدی ہو سکے گھر سے باہر نکالیں تلاوت قرآن کریم،ذکر واذکار کی کثرت کریں حقوق العباد میں کہیں خرابی ہے تو اس کا ازالہ کریں۔
سنن دارمی کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔

ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﻥ اﻟﺒﻴﺖ ﻟﻴﺘﺴﻊ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻠﻪ ﻭﺗﺤﻀﺮﻩ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻭﺗﻬﺠﺮﻩ اﻟﺸﻴﺎﻃﻴﻦ، ﻭﻳﻜﺜﺮ ﺧﻴﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﻘﺮﺃ ﻓﻴﻪ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻭﺇﻥ اﻟﺒﻴﺖ ﻟﻴﻀﻴﻖ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻠﻪ ﻭﺗﻬﺠﺮﻩ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ، ﻭﺗﺤﻀﺮﻩ اﻟﺸﻴﺎﻃﻴﻦ، ﻭﻳﻘﻞ ﺧﻴﺮﻩ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻘﺮﺃ ﻓﻴﻪ اﻟﻘﺮﺁﻥ،

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے تھے کہ جس گھر میں ( اچھی طرح سے)قرآن پڑھا جائے ( اور اس پر عمل کیا جائے) بلاشبہ اس گھر کی وسعت بڑھ جاتی ہے( یعنی وہاں ذہنی سکون واطمینان اور رب العالمین کی خاص نظر کرم ہوتی ہے) اس گھر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں شیاطین وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں اور اس گھر میں خیر وبرکت پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہے،اور جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کا ( اچھی طرح سے )اہتمام نہ ہو بلاشبہ وہ گھر ان پر تنگ کر دیا جاتا ہے ( یعنی پریشانیوں اور تکالیف سے بھر دیا جاتا ہے)وہاں سے فرشتے ہجرت کر جاتے ہیں،شیاطین وہاں آ حاضر ہوتے ہیں اور اس گھر کی خیر وبرکت نہایت کم ہو جاتی ہے۔
سنن دارمی:(3412) صحيح
یہ روایت اگرچہ موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے کیونکہ ایسی بات صحابی اپنے اجتہاد و مرضی سے بیان نہیں کر سکتے ہیں کہ ان کا تعلق امور غیب سے ہے اور ہر وہ چیز جو صحابی بیان کریں اور اس کا تعلق فضائل وعقاب،جزا،سزا یا امور غیب سے ہو وہ مرفوع حدیث ہی ہے بس صحابی نے اسے اختصار سے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے منسوب کیے بغیر بیان کر دیا ہوتا ہے ( ہاں کوئی دلیل وقرینہ اس کے اسرائیلی روایت ہونے پر مل جائے تو یب ایسا نہیں ہے)۔
امام برهان الدین البقاعی الشافعى ایک جگہ موقوفا روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

ﻭﻣﺜﻞ ﻫﺬا ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﺑﺎﻟﺮﺃﻱ، ﻓﻠﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ۔
ﻣﺼﺎﻋﺪ اﻟﻨﻈﺮ للإﺷﺮاﻑ ﻋﻠﻰ ﻣﻘﺎﺻﺪ اﻟﺴﻮﺭ:1/ 158

ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

ﻭﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ، ﻷﻥ ﻣﺜﻠﻪ ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ اﻟﺮﺃﻱ۔
ﻣﺼﺎﻋﺪ اﻟﻨﻈﺮ للإﺷﺮاﻑ ﻋﻠﻰ ﻣﻘﺎﺻﺪ اﻟﺴﻮﺭ:2/ 474

ہم نے یہاں یہ حوالہ صرف یہ بتانے کے لئے نقل کیا کہ یہ اصول محدثین واہل علم کے ہاں معروف موجود تھا۔
ایک جگہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

ﻭﻟﻠﺤﺪﻳﺚ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻥ اﻟﻈﺎﻫﺮ اﻃﻼﻉ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﻭﻫﻮ ﻣﺼﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻮﻝ ﺑﺄﻥ ﻟﻘﻮﻝ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﻛﻨﺎ ﻧﻔﻌﻞ ﻛﺬا ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﺳﻮاء ﺻﺮﺡ ﺑﺈﺿﺎﻓﺘﻪ ﺇﻟﻰ ﺯﻣﻨﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻡ ﻻ، فتح الباری:1/ 385

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

ﺃﻣﺎ ﺃﻭﻻ ﻓﻬﻮ ﻣﻤﺎ ﻻ ﻣﺠﺎﻝ ﻟﻠﺮﺃﻱ ﻓﻴﻪ ﻓﻠﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ
ﻭﺃﻣﺎ ﺛﺎﻧﻴﺎ ﻓﻌﻠﻰ ﺗﻘﺪﻳﺮ ﺗﺴﻠﻴﻢ ﺃﻧﻬﺎ ﻟﻢ ﺗﺪﺭﻙ اﻟﻘﺼﺔ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺮﺳﻞ ﺻﺤﺎﺑﻲ ﻭﻫﻮ ﺣﺠﺔ ﻷﻧﻪ ﻳﺤﺘﻤﻞ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻥ ﺃﺧﺬﺗﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻭ ﻋﻦ ﺻﺤﺎﺑﻲ ﺁﺧﺮ ﺃﺩﺭﻙ ﺫﻟﻚ، فتح الباری:1/ 464

اور کہا:

ﻭﻫﻤﺎ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻧﺎ ﻣﻮﻗﻮﻓﻴﻦ ﻟﻔﻈﺎ ﻓﺣﻜﻢﻫﻤﺎ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻥ ﻣﺜﻠﻬﻤﺎ ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﺑﺎﻟﺮﺃﻱ، فتح الباری:1/ 584

اور کہا:

ﻭﻫﺬا ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎ فحكمه ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻧﻪ ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﺑﺎﻟﺮﺃﻱ، فتح البارى:2/ 350

حافظ ابن حجر ایک جگہ یوں وضاحت کرتے ہیں۔

ﻭاﻟﻤﺴﺄﻟﺔ ﻣﺸﻬﻮﺭﺓ ﻓﻲ اﻷﺻﻮﻝ ﻭﻓﻲ ﻋﻠﻢ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻫﻲ ﺃﻥ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﺇﺫا ﺃﺿﺎﻓﻪ ﺇﻟﻰ ﺯﻣﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻋﻨﺪ اﻷﻛﺜﺮ ﻷﻥ اﻟﻈﺎﻫﺮ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻃﻠﻊ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﻭﺃﻗﺮﻩ ﻟﺘﻮﻓﺮ ﺩﻭاﻋﻴﻬﻢ ﻋﻠﻰ ﺳﺆاﻟﻬﻢ ﺇﻳﺎﻩ ﻋﻦ اﻷﺣﻜﺎﻡ ﻭﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻀﻔﻪ ﻓﻠﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻋﻨﺪ ﻗﻮﻡ،
فتح الباری:9/ 306

اور مزید کہتے ہیں

ﻛﺎﻥ اﻟﺮاﺟﺢ ﺃﻥ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﺇﺫا ﻗﺎﻝ ﻛﻨﺎ ﻧﻔﻌﻞ ﻛﺬا ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻥ اﻟﻈﺎﻫﺮ اﻃﻼﻉ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﻭﺗﻘﺮﻳﺮﻩ ﻭﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﻣﻄﻠﻖ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﻓﻜﻴﻒ ﺑﺂﻝ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ اﻟﺼﺪﻳﻖ، فتح الباری:9/ 649

اور کہا:

ﻭﻻﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﻓﻲ اﻟﺰﻫﺪ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻗﺎﻝ ﺿﺮﺱ اﻟﻜﺎﻓﺮ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﺃﻋﻈﻢ ﻣﻦ ﺃﺣﺪ ﻳﻌﻈﻤﻮﻥ ﻟﺘﻤﺘﻠﻰء ﻣﻨﻬﻢ ﻭﻟﻴﺬﻭﻗﻮا اﻟﻌﺬاﺏ ﻭﺳﻨﺪﻩ ﺻﺤﻴﺢ ﻭﻟﻢ ﻳﺼﺮﺡ ﺑﺮﻓﻌﻪ ﻟﻜﻦ ﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻧﻪ ﻻ ﻣﺠﺎﻝ ﻟﻠﺮﺃﻱ ﻓﻴﻪ، فتح الباری:11/ 423

اور کہا:

ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎ ﻓﻠﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻥ ﻫﺬا ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ اﻟﺮﺃﻱ،التلخیص الحبیر:1/ 288

نظم المتناثر:ص:227میں ہے۔

ﻭﺃﻣﺎ اﻵﺛﺎﺭ ﻋﻦ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ اﻟﻤﺼﺮﺣﺔ ﺑﺎﻟﻤﻬﺪﻱ ﻓﻬﻲ ﻛﺜﻴﺮﺓ ﺃﻳﻀﺎ ﻟﻬﺎ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﺇﺫ ﻻ ﻣﺠﺎﻝ للاﺟﺘﻬﺎﺩ ﻓﻲ ﻣﺜﻞ ﺫﻟﻚ،

تنبيه القارئ:ص:11 میں ایک جگہ ہے۔

ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﺮاﺟﺢ ﺭﻓﻌﻪ ﻓﻼ ﺇﺷﻜﺎﻝ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎ ﻓﻠﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻷﻥ ﻣﺜﻞ ﻫﺬا ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﺑﺎﻟﺮﺃﻱ،

تذكرة الموضوعات للفتنى: ص: 209 میں ایک جگہ ہے۔

ﻭﻣﺜﻞ ﻫﺬا اﻟﻮﻗﻒ ﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ۔

النکت علی کتاب ابن الصلاح میں حافظ لکھتے ہیں:

ﻭاﻟﺤﻖ ﺃﻥ ﺿﺎﺑﻂ ﻣﺎ ﻳﻔﺴﺮﻩ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻤﺎ ﻻ ﻣﺠﺎﻝ للاﺟﺘﻬﺎﺩ ﻓﻴﻪ ﻭﻻ ﻣﻨﻘﻮﻻ ﻋﻦ ﻟﺴﺎﻥ اﻟﻌﺮﺏ فحكمه اﻟﺮﻓﻊ ﻭﺇﻻ ﻓﻼ. ﻛﺎﻹﺧﺒﺎﺭ ﻋﻦ اﻷﻣﻮﺭ اﻟﻤﺎﺿﻴﺔ ، ﻭﻋﻦ اﻷﻣﻮﺭ اﻵﺗﻴﺔ، ﻭاﻹﺧﺒﺎﺭ ﻋﻦ ﻋﻤﻞ ﻟﻪ ﺛﻮاﺏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺃﻭ ﻋﻘﺎﺏ،
النكت على كتاب ابن الصلاح:1/ 86

حافظ ابن رجب لکھتے ہیں:

ﻭاﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﺇﺫا ﻗﺎﻝ: ﺃﻣﺮﻧﺎ ﺃﻭ ﻧﻬﻴﻨﺎ، ﻓﺈﻧﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ ﻋﻨﺪ اﻷﻛﺜﺮﻳﻦ۔
فتح الباری لابن رجب:2/ 92

اور کہا:

ﻟﻜﻨﻪ ﻓﻲ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ، ﻓﺈﻥ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﺇﺫا ﻗﺎﻝ ((ﺃﻣﺮﻧﺎ ﺃﻭ ﻧﻬﻴﻨﺎ ﺑﺸﻲء، ﻭﺫﻛﺮﻩ ﻓﻲ ﻣﻌﺮﺽ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ ﻗﻮﻱ اﻟﻈﻦ ﺑﺮﻓﻌﻪ؛ ﻷﻧﻪ ﻏﺎﻟﺒﺎ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺄﻣﺮ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻧﻬﻴﻪ،
فتح الباری لابن رجب:7/ 153

حافظ ابن عبدالھادی لکھتے ہیں:

ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﺎ ﺭﻭاﻩ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺑﻼﻝ اﻟﺜﻘﺔ اﻟﺜﺒﺖ ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺃﺳﻠﻢ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﺣﻠﺖ ﻟﻨﺎ ﻣﻴﺘﺘﺎﻥ ﻭﻫﻮ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﻓﻲ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
تنقيح التحقيق لابن عبد الهادى:4/ 643

كشف الأستار عن زوائد البزار میں ایک جگہ لکھا ہے:

ﻭحكمه ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ، ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ؛ ﻷﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻓﻌﻞ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ۔
كشف الأستار عن زوائد البزار:2/ 315

حافظ بوصیری لکھتے ہیں:

ﺭﻭاﻩ ﻣﺴﺪﺩ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎ، ﻭﺭﺟﺎﻟﻪ ﺛﻘﺎﺕ، ﻭﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ۔
إتحاف الخيرة المهرة للبوصيرى:3/ 209(2569)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

ﺭﻭاﻩ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳﻪ ﺑﺴﻨﺪ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭحكمه ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ ﺇﺫ ﻟﻴﺲ ﻟﻠﺮﺃﻱ ﻓﻴﻪ ﻣﺠﺎﻝ
إتحاف الخيرة المهرة للبوصيرى:8/ 232

حافظ ابن حجر عسقلانی ایک جگہ یوں حکم لگاتے ہیں:

ﻫﺬا ﻣﻮﻗﻮﻑ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ، المطالب العالية:7/ 33

اور مزید ایک جگہ فرماتے ہیں:

ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭحكمه ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ، ﺇﺫ ﻻ ﻣﺠﺎﻝ ﻟﻠﺮﺃﻱ ﻓﻲ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﻮﺭ۔
المطالب العالية:18/ 647

ایک جگہ حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:

ﻗﻠﺖ :ﻟﻜﻨﻪ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﻭﻛﺄﻥ اﻟﺤﺎﻛﻢ ﻳﺮﻯ ﺃﻥ حكمه ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ ﻣﻦ ﺃﻥ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ ﻻ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﺜﻞ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﺭﺃﻳﻪ، تغليق التعليق لابن حجر:3/ 117

مقدمة ابن الصلاح میں ہے۔

ﻓﻜﻞ ﺫﻟﻚ ﻭﺃﻣﺜﺎﻟﻪ ﻛﻨﺎﻳﺔ ﻋﻦ ﺭﻓﻊ اﻟﺼﺤﺎﺑﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺇﻟﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺣﻜﻢ ﺫﻟﻚ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺮﻓﻮﻉ ﺻﺮﻳﺤﺎ۔ مقدمة ابن الصلاح:ص:51

یہ سب لکھنے کے بعد میری نظر ایک رسالہ پر پڑھی جس کا نام لکھ رہا ہوں۔

ﻣﺎ ﻟﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﺮﻓﻊ ﻣﻦ ﺃﻗﻮاﻝ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭﺃﻓﻌﺎﻟﻬﻢ،

ﺟﻤﻊ ﻭﺗﺮﺗﻴﺐ: ﺩ. ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻄﺮ اﻟﺰﻫﺮاﻧﻲ،

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ