سوال (3602)

قسطوں پر مکان لیا ہے اور بائع نے شرط لگائی ہے کہ میں مکان کا قبضہ آپ کو دے رہا ہوں، لیکن جب تک قسطیں پوری نہیں ہو جاتی ہیں، آپ مکان کا کرایہ دیتے رہیں گے، یہ معاملہ کیسا ہے؟ نیز اس کے جواز پر حدیثِ جابر سے استدلال کیسا ہے کہ انہوں نے اونٹ فروخت کرکے شرط لگائی کہ پہلے میں اس پر سوار ہو کر گھر تک جاؤں گا پھر حوالے کروں گا؟

جواب

جہاں تک مجھے سمجھ آ رہی ہے، اگر بیچنے والا یہ شرط لگاتا ہے کہ مکان کا قبضہ خریدار کو دے دیا جائے گا، لیکن جب تک تمام قسطیں مکمل نہ ہوں، خریدار مکان کا کرایہ دیتا رہے گا، تو یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں ملکیت اور کرایہ کا تناقض ہے، کیونکہ خریدار مکان قسطوں پر خرید رہا ہے اور قبضہ حاصل کر رہا ہے، تو شرعی طور پر وہ مکان کا مالک بن جاتا ہے، چاہے مکمل قیمت ابھی ادا نہ ہوئی ہو، ایسے میں خریدار سے کرایہ لینا درست نہیں کیونکہ کرایہ صرف اس چیز پر لیا جا سکتا ہے جو کسی دوسرے کی ملکیت ہو ۔ اسی لیے میں نے یہ پوچھا کہ ملکیت بھی دی جائے گی یا نہیں۔ یا صرف قبضہ دیا جا رہا ہے،
ایک ہی معاملے میں خرید و فروخت اور کرایہ کو مشروط کرنا ممنوع ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ یعنی ایک معاملے میں قرض اور خرید و فروخت کو اکٹھا کرنا جائز نہیں، شاید ترمذی کی حدیث ہے، اس کے الفاظ فوری طور پر میرے ذہن میں نہیں آ رہے، لہذا اس شرط کی وجہ سے یہ معاملہ سود یا غرر کی وجہ سے ناجائز ہوگا، جہاں تک حدیث جابر سے استدلال کرنے کی بات ہے تو اس حدیث سے موجودہ معاملے پر استدلال درست نہیں کیونکہ دونوں معاملات میں واضح فرق ہے:
اونٹ کا مالک جابرؓ ہی رہے جب تک مکمل تصرف نہ ہو:
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا سودا کیا، لیکن قبضہ اور مکمل ملکیت کی منتقلی مدینہ پہنچنے کے بعد ہوئی۔
موجودہ صورت میں، بیچنے والا مکان کا قبضہ دے رہا ہے، لیکن ملکیت اور کرایہ کی شرط لگا رہا ہے، جو کہ حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ کے معاملے سے مختلف ہے اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ حدیث میں کوئی اجارہ یا اضافی شرط نہیں تھی، میزان بنک کے اجارہ کا بالکل یہی معاملہ ہے۔ کہ ایک وقت میں بیع و قرض دونوں معاملات جاری رکھے جا رہے ہیں، لہذا کرایہ کی شرط ہٹا لی جائے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ہوگا “لا یحل سلف و بیع” کے الفاظ ہیں ترمذی کی حدیث ہے وہ متعلقہ مقام پر لکھ لی جائے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ