غَلَطی ہائے مضامین
﴿ادبی ذوق رکھنے والے احباب کے لیے نیا سلسلہ، غلط لکھے جانے والے الفاظ کی درستی، صرف روزنامہ خبریں کے صفحات پر﴾
اردو زبان کے بہت سے الفاظ کے املا کو بگاڑنے میں صحافیوں اور کالم نگاروں کا ہاتھ ہے۔آج کل اردو زبان کے اکثر شاعر اور ادیب، کالم نگاری کی طرف مائل ہیں مگر افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب سنَد کا درجہ رکھنے والے یہ لوگ بھی الفاظ کو غَلَط املا کے ساتھ لکھتے ہیں اور اگر غَلَطی کی طرف توجہ مبذول کروائی جائے تو ناراض ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اغلاط کو کمپوزر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان کا دامن بڑا وسیع ہے مگر قواعد و ضوابط بہ ہر حال موجود ہیں، اگر آپ قواعد ہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھیں گے تو الفاظ بگڑتے رہیں گے۔مولانا ظفر علی خان کے متعلق مشہور ہے کہ اُنھوں نے اپنے اخبار میں لفظ ” فوتگی “ لکھنے والے کو نوکری سے نکال دیا تھا اس لیے کہ قواعد کی رُو سے لفظ ” فوتگی “ غَلَط ہے اگر اِسی اصول پر آج عمل کر لیا جائے تو اخبارات کے دفاتر میں چند لوگ ہی کام کر سکیں گے۔گذشتہ چند روز کے دوران کالموں میں لکھے جانے والے چند غَلَط الفاظ یہ ہیں۔
حامی اور ہامی :- ایک بڑے سینیَر کالم نگار اور قومی سطح کے شاعر اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔ ” میں نے استاد ذوق کو یاد کرتے ہوئے شرکت کی حامی بھر لی “ جب لفظ ” حامی “ استعال کیا جاتا ہے تو ذہن میں فوراً ” حمایت کرنے والا “ آتا ہے کیوں کہ ” حامی “ کے معانی ہی ” حمایت کرنے والا، معاون اور دوست “ کے ہیں۔شاید موصوف ” ہامی بھر لی “ لکھنا چاہتے تھے۔بہت سے احباب اس لفظ کو لکھتے وقت مخمصے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اِن دونوں الفاظ کو ادل بدل کر لکھ دیتے ہیں۔یاد رکھیں! لفظ ”حامی “ کا معنی ہے، حمایت کرنے والا اور ” ہاں “ سے ” ہامی بھرنا “ ہے، یعنی ارادہ کرنا یا آمادہ ہونا “۔ ” حامی “ کو سمجھنے کے راشد آذر کا یہ شعر پڑھ لیں۔
سمجھ رہا ہے تری ہر خطا کا حامی مجھے
دِکھا رہا ہے یہ آئینہ میری خامی مجھے
حکیم مومن خاں مومن کا یہ شعر جو ‘ کلیاتِ مومن 1930 ء “ کے صفحہ نمبر 156 پر شائع ہو چکا ہے، لفظ ” ہامی “ کی وضاحت کرتا ہے۔
کیا مرے قتل پہ ہامی کوئی جلّاد بھرے
آہ جب دیکھ کے تجھ سا ستم ایجاد بھرے
شبہ یا شبہہ :- مذکورہ کالم میں ایک لفظ ” شبہ “ بھی موجود ہے۔شبہ کے آخر میں دو ” ہ “ آتی ہیں، یعنی درست لفظ ” شبہہ “ ہے۔اگر اِس لفظ کے آخر میں ایک ” ہ “ لگا دی جائے تو اِس لفظ کا امالہ بناتے وقت یہ لفظ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔زبان میں فصاحت پیدا کرنے کے لیے ہم اکثر امالہ کا استعمال کرتے ہیں۔کسی لفظ کے آخر میں ” ا “ یا ” ہ “ ہو تو اِن کی جگہ ” ے “ لگا کر امالہ بنا دیا جاتا ہے، مثلا مکّہ سے مکّے، مدینہ سے مدینے اور بیٹا سے بیٹے وغیرہ، اگر ” شبہہ “ کے آخر میں ایک ” ہ “ لگا دی جائے تو امالہ ” شبے “ بنے گا جس کا کوئی مطلب ہی نہیں، البتہ اگر ” شبہہ “ کے آخر میں دو ” ہ “ لگا دی جائیں تو امالہ بناتے وقت ایک ” ہ “ کی جگہ ” ے “ لگا کر ” شبہے “ لفظ بن جائے گا جو بامعنی لفظ ہے۔
کَہ، بَہ اور سَہ وغیرہ:- ایک معروف قومی روزنامے کی کالم نگار نے اپنے کالم میں لفظ ” بہہ “ لکھا ہے، کالم نگاروں کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ جہاں دو ” ہ “ آتی ہیں وہاں ایک لگا دیتے ہیں اور جہاں ایک آتی ہے وہاں دو لگا دیتے ہیں۔کَہ، بَہ اور سَہ کے آخر میں ایک ” ہ “ آتی ہے اگر دو لگا دی جائیں تو مصدر بناتے وقت عجیب مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہو جائے گی، اگر یقین نہ آئے تو کہہ، بہہ اور سہہ کے آخر میں ” نا “ لگا کر دیکھ لیں۔
عش عش کرنا یا اَش اَش کرنا :- درست لفظ ” اَش اَش کرنا “ ہے, اب تو درسی کتب میں بھی یہ لفظ اَش اَش کے املا کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔امام بخش ناسخ کا شعر بھی پڑھ لیں جو 1907 میں شائع ہونے والے ” دیوانِ ناسخ “ کے صفحہ نمبر 163 پر اِس املا کے ساتھ لکھا ہُوا ہے۔
ہم سفر وہ ہے جس پہ جی غش ہے
دشتِ غربت مقامِ اَش اَش ہے
اِس کا مطلب یہ ہے کہ شروع ہی سے یہ لفظ اَش اَش کے املا کے ساتھ مستعمل ہے۔ ” عش عش “ بعد کے لوگوں کی تحریف ہے۔
ناطہ یا ناتا :- معلوم نہیں ” ناتا “ کو ” ناطہ “ لکھنے کی رَوِش کس نے ڈال دی؟ ایک معروف قومی اخبار کے مدیر نے اپنے کالم میں ” ناطہ “ لکھا تو اس لفظ کی درستی کا خیال آیا۔میر تقی میر کے دو اشعار ملاحظہ کر لیں۔
خواب میں بھی رہا تُو آنے سے
دیکھنے ہی کا تھا یہ سب ناتا
منہ دِکھاتا برسوں وہ خوش رُو نہیں
چاہ کا یوں کب تلک ناتا رہا
بلکل اور بالکل :- ایک صاحب نے اپنے کالم میں تین بار لفظ ” بالکل “ کو ” بلکل “ لکھ دیا ہے، اب اتنی بھی کیا تن آسانی کہ بے چارے ” بالکل “ کو الف ہی سے محروم کر دیا جائے۔یہ ٹھیک ہے کہ الف پڑھنے میں نہیں آتا مگر لکھنے میں تو آتا ہے۔اگر الفاظ کے ساتھ یہ سلوک اختیار کیا جاتا رہا تو وہ دن دُور نہیں جب ” خوش “ کو ” خُش “ اور ” خود “ کو ” خُد “ بھی لکھنا شروع کر دیا جائے گا۔
اٹھارہویں یا اٹھارویں :- اِس لفظ کے املا کے متعلق بھی بہت سے لوگ تذبذب میں مبتلا ہیں، بہت سے احباب اپنے کالم میں ” اٹھارہویں ترمیم “ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، گنتی کے اِس انداز کو ” اعدادِ ترتیبی “ کہتے ہیں۔سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ گنتی کی اِس ترتیب یعنی گیارھویں سے لے کر سترھویں تک، میں ہائے مخلوط استعمال ہوتی ہے اور یہ ہائے مخلوط بھی صرف سترھویں تک میں مستعمل ہے، اٹھارویں میں یہ استعمال ہی نہیں ہوتی یعنی درست املا ” اٹھارویں “ ہے۔
پتہ یا پتا :- ” پَتا “ بہ معنی ٹھکانا، کھوج، نشان یا انگریزی میں ایڈریس، ” پَتّا “ بہ معنی ورق یا کسی درخت اور پودے کا شگوفہ یا برگ اور ” پِتّا “ جس کے معانی ہیں برداشت، حوصلہ یا انسانی جسم کا ایک عضو، اِن تمام الفاظ کے آخر میں الف لکھنا چاہیے۔اردو زبان کا بنیادی حرف الف ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے، اہلِ زبان نے اِن تمام الفاظ کو الف کے ساتھ ہی لکھا ہے۔1863 ء میں شائع ہونے والے ” دیوانِ غالب “ میں لفظ ” پَتا “ الف کے لکھا ہُوا ہے۔
تُو مجھے بھول گیا ہو تو پَتا بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
لفظ ” پَتّا “ کلیاتِ میر 1916 ء “ کے اِس شعر میں موجود ہے۔
پَتّا پَتّا بُوٹا بُوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ناعاقبت اندیش :- یعنی جو آخرت یا انجام کی فکر نہ کرے، اِس لفظ کو غالب کے زمانے سے غلط لکھا جا رہا ہے، اور ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ غالب اور دوسرے شعرا نے غلط العام ہونے کی وجہ سے یہ لفظ استعمال کیا ہے حالاں کہ اِس دلیل میں وزن بالکل نہیں ہے۔درست لفظ ” عاقبت نا اندیش “ ہے، یعنی نفی عاقبت کی نہیں بلکہ اندیشے کی کرنی چاہیے۔
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )
حیات عبداللہ کی کالم نگاری
ذی احتشام و ذی وقار جناب حیات عبداللہ کے ساتھ ہماری شناسائی تقریباً ایک عشرہ پر محیط ہے۔ان دنوں میں روزنامہ نئی بات لاہور کا ایڈیٹوریل انچارج تھا، جب جواں فکر اور جوان سال جناب حافظ یوسف سراج صاحب نے (جو کہ پیغام ٹی وی میں ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں ) ایک ملاقات میں مجھ سے جناب حیات عبداللہ کی علمی، ادبی اور فکری و نظری شخصیت کا تذکرہ کیا۔میں نے ان سے عرض کی کہ آپ جناب حیات عبداللہ صاحب سے کسی طرح رابطہ کروا دیں تاکہ میں انھیں استدعا کروں کہ وہ روز نامہ نئی بات کے ادارتی صفحات کی زینت و وقعت میں اپنے کالم کی اشاعت سے اضافہ کریں۔۔ان کی کالم نگاری کا سلسلہ پہلے سے جاری تھا۔میرا مقصود ان کے ادبی اسلوب سے خوشہ چینی اور اکتساب ہنر تھا۔بہر کیف میرا ان سے رابطہ ہوا اور انھوں نے میری استدعا اور درخواست کو شرف پذیرائی بخشا اور روزنامہ نئی بات کے لیے کالم ارسال کرنا شروع کر دیے۔
ان کے وہ تمام کالم جن میں انھوں نے اکابر کالم نگاروں کے کالموں کی آرائش کرنے والے اشعار میں اسقام کی نشان دہی کی۔دنیائے کالم نگاری میں جناب ناصر زیدی کے بعد وہ دوسری شخصیت ہیں جنھوں نے اس طرز کی صنفِ کالم نگاری کو آگے بڑھایا اور اپنا سکہ منوایا۔ ان کے یہ کالم شعر و ادب سے شغف رکھنے والے حلقوں میں بہت مقبول ہوئے۔ اس ضمن میں انھوں نے بلا رو رعایت یا بلا کم و کاست تمام کالم نگاروں کے کالموں میں مندرج غلط اشعار کی نشان دہی کرتے ہوئے درست اشعار کو اپنے کالموں کی زینت بنایا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس باب میں کبھی کسی کالم نگار یا شاعر نے انھیں چیلنج نہیں کیا۔ اشعار کی جرح و تعدیل اور تنقیح و تصحیح میں ان کے استناد کا ہر کوئی قائل و مداح ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔
میں نے تین نومبر 2018 ء کو روزنامہ نئی بات کو الوداع کہا۔ اس کی خبر جب روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر جناب ضیا شاہد مرحوم تک پہنچی تو (تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ) انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے روزنامہ خبریں میں کالم لکھنے کی دعوت دی۔یہ دعوت مشروط تھی۔شرط یہ تھی کہ اس حیات مستعار میں جن بڑے ادبا شعرا اور خطبا سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہوا، ان کے فکر و فن اور شخصیت بارے اپنی ذاتی یاد داشتوں کو کالم کی شکل میں سپرد قرطاس و قلم کروں۔ راقم جناب ضیا شاہد مرحوم کے رفیق کار کی حیثیت سے 1978 ء میں ان کے جریدے ہفت روزہ صحافت سے بھی وابستہ رہا۔جب میرے کالم روزنامہ خبریں میں شائع ہونا شروع ہوئے تو انھی ایام میں مجھ سے جناب حیات عبداللہ نے دوبارہ رابطہ کیا اور یہ کہا کہ میں روزنامہ خبریں میں اپنے کالموں کی اشاعت چاہتا ہوں کہ جنوبی پنجاب میں روزنامہ خبریں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ میں نے جناب ضیا شاہد سے ان کی شعری، نثری، علمی، ادبی اور فکری شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی تو انھوں نے بلا توقف مجھے یہ کہا: اس گوہر یک دانہ سے کہیں کہ وہ اپنے کالم بلا توقف ارسال کریں، انھیں یقین دلائیں کہ ان کے کالم بلا قطع و برید روزنامہ خبریں کے ادارتی صفحے کی زینت بنتے رہیں گے جب تک وہ بھیجتے رہیں گے۔۔
اب بہ وجوہ گزشتہ تین برسوں سے میں کوئی اخبار نہیں پڑھتا ، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے کالم اج کل کس اخبار میں شائع ہو رہے ہیں ۔
یہ تو خیر ایک فوری تاثر پر مشتمل مختصر تحریر ہے ، ان کی شخصیت اتنی کثیر الصفات اور وسیع الجہات ہے کہ اس پر باقاعدہ ایک طویل مقالہ بھی لکھا جائے تو کم ہوگا۔خاکسار یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ جناب حیات عبداللہ صاحب صرف کالم نگار ہی نہیں بلکہ ایک ثقہ ، مستند و جید شاعر بھی ہیں۔ علم العروض پر انھیں قدرت کاملہ اور مہارت تامہ حاصل ہے۔وہ یقیناً ایک صاحبِ اسلوب ادیب، عالم، محقق، استاذ، شاعر اور کالم نگار ہیں۔ ” کھوج ” ان کے ایسے ہی کالموں کا کتابی مجموعہ ہے۔ دعا ہے کہ قرطاس کے کعبے میں ان کے فکر و نظر کا زمزم بہتا رہے اور تشنگانِ علم و ادب اپنی پیاس بجھاتے رہیں۔
تحریر: حافظ شفیق الرحمان