دکھ اس بات پر نہیں ہے کہ غزہ کیوں اب آہستہ آہستہ خبروں سے اور لوگوں کی پوسٹس سے غائب ہو رہا ہے. ظاہر ہے کہ مجموعی یادداشت اپنی سرشت میں بہت کچّی ہوتی ہے اور لوگ زیادہ عرصے تک کسی موضوع سے بندھے نہیں رہتے۔
خصوصاً اس وقت جب بائیکاٹ کی ہومیوپیتھک گولیاں کھلا کر عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہو کہ بس یہی ہے جو آپ کے بس میں ہے، تو بس اتنا ہی کر لو. وہ بھی کچھ دنوں کی مار ہے. بائیکاٹ کرنے والوں کو بھی پتہ ہے کہ اس سے کمپنیوں کو نقصان تو ہوتا ہے لیکن مسجد ِاقصی پر صیہونی قبضے کو ذرہ بھر فرق نہیں پڑتا، نہ ہی اس سے فلسطین کی آزادی کے سوتے پھوٹتے ہیں. یہ بس دل کو بہلانے کا خیال ہے جس کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہیں. کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اصل تکلیف دہ چیز وہ موضوعات ہیں جو غزہ کے مسئلے کی جگہ لے رہے ہیں۔ کوئی ریٹائرڈ مہاراجہ ع خ، مانیکا اور ان دونوں کی باری باری اہلیہ پر تفصیل سے اظہار ِخیال کر رہا ہے۔ کسی کے لیے یہ انتہائی پیچیدہ موضوع ہے کہ ایک سابق کرکٹر نے کسی فاحشہ کو فاحشہ کیوں کہا۔ کچھ ایسے بےغیرت بھی ہیں جو غزہ سے جڑے صیہونی بیانات پر میمز بنا کر انتہائی سنجیدہ مسئلے میں مزاح کا پہلو تلاش کرتے ہوئے cool بننے کی کوشش کر رہے ہیں،کیونکہ اب تباہی و بربادی کی تصاویر دیکھ دیکھ کر وہ بور ہو گئے ہیں۔ کچھ نیا ہونا چاہیے۔
ذرا ان مسائل پر نظر دوڑائیں جو آپ کو اپنی وال پر فلسطین کے معاملے کو پیچھے دھکیلتے نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح کی فضولیات ہوں گی۔ کوئی واقعتاً سنجیدہ موضوع ہو تو مجھے بھی بتائیے گا۔
بائیکاٹ سے متعلق یہ قلابازی بھی دیکھی کہ ایسا کرتے ہیں، پہلے سب مل کر مکڈونلڈ کا بائیکاٹ کرتے ہیں. جب یہ پوری دنیا میں بند ہو جائے گا، پھر دوسری کمپنی کی باری، پھر تیسری اور پھر اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا. کمال است.
نوٹ: راقم بائیکاٹ مہم کے خلاف نہیں ہے لیکن اس ایک قدم کو جس طرح مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف پیش قدمی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ مضحکہ خیز ہی نہیں قابل ِمذمت بھی ہے۔

 عبداللہ انصاری