تنہائی کی اذیتیں سب سے زیادہ کرب و بلا میں مبتلا کرتی ہیں، یہ تلخیاں اتنی نوکیلی ہوتی ہیں کہ زندگی کے سارے طرب کو بھنبھوڑ کر کرب میں مبتلا کر ڈالتی ہیں، تنہائی کے ماروں ہی کو خوب ادراک ہوتا ہے کہ تنہائی سی تلخی اور سختی کوئی اور روگ دے ہی نہیں سکتا۔ ان اذیتوں کی شدتیں اس وقت مزید آپے سے باہر ہو جاتی ہیں جب آپ کے گرد و نواح میں موجود تمام مسیحا، محض تماشائی کا روپ دھار چکے ہوں، پھر ان مصائب میں تلاطم خیز طوفان اٹھتے ہیں۔ آپ کی چیخیں سب کی سماعتوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی ہوں تو پھر ایسے درد کو آنکھیں دیکھنے کی تاب بھی نہیں لا پاتیں۔

کسی ہجراں نصیب کی سسکیاں اس کے سارے بہی خواہوں کے نزدیک بے وقعت اور بے توقیر ٹھہری ہوں تب بے بسی کے دھندلکوں میں کچھ بھی تو دِکھائی اور سُجھائی نہیں دیتا، وہ حرماں نصیب جس قدر بِلبِلا رہا ہوتا ہے۔ اس کا تصور ہی محال ہے۔ انسان کتنا ہی تنہائی کے حصار میں جکڑا ہو، بہ ہر حال اسے یہ آس تو ہوتی ہے کہ کسی ایک شخص کا دل تو ضرور اس کے واویلوں کی بازگشت کو سُن کر پسیج جائے گا، ستاون جیتے جاگتے ہٹے کٹے انسانوں میں سے کوئی تو ان کے جسموں کے اڑتے چیتھڑے دیکھ کر مدد کرنے کی حمیت سے سرشار ہو کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں خون ریزی سے روکنے کے لیے للکارے گا اور اگر کوئی ایک بھی ایسی دل دوز آہیں سُن کر جھرجھری تک نہ لے تو ایسے درد کے ماروں کی اضطراب اور تکلیف کی شدت کا ادراک یہ دنیا کر ہی نہیں سکتی۔

درد سے لدی فلک شگاف چیخوں کو سُن کر ستاون طاقت ور انسان، اندھے، بہرے اور گونگے بن جائیں تب وہ لوگ اکیلے میں اپنے اللہ کے سامنے کس قدر آنسو بہاتے ہوں گے، وہ اللہ کی بارگاہ میں کس قدر رو رو کر ہلکان ہو جاتے ہوں گے، یہ تو ایسے آلام سے گزرنے والے شخص ہی کو معلوم ہوتا ہے۔احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے:-
ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا
اپنے ننھے بچوں کے کٹے پھٹے مردہ جسموں کو اٹھانا اتنا سہل تو نہیں ہوتا۔ امتِ مسلمہ لُٹ گئی، غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا اور اب آپ ستاون لوگوں میں سے چند کی زبانوں سے نکلنے والے لطائف پڑھ کر ان کی بے حسی پر نوحہ خوانی کریں، سب سے پہلا لطیفہ سعودی ولی عہد کا پڑھیں کہ ” اسرائیل محاصرہ ختم کرے “ ایک اور چٹکلا بھی پڑھیں جو طیّب اردوان کی زبان سے برآمد ہُوا ہے کہ ” مسجدِ اقصیٰ ہماری ریڈ لائین ہے “ ایرانی صدر کی بذلہ سنجی بھی دیکھیں کہ ” فلسطین مسلم اُمّہ کا فخر ہے “ ان سب سے زیادہ مضحکہ خیز ٹھٹھا انوار الحق کاکڑ کا ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ ” سلامتی کونسل قتلِ عام رکوائے “
آپ نے خود پڑھ لیا کہ یہ ستاون شعبدے باز کس ” سلیقے اور قرینے “ کے ساتھ گونگلوؤں پر سے مٹی اتار کر اپنے مُردہ ضمیر کو تسلیاں دے رہے ہیں۔کیا ان کے یہ ” لطائف “ سُن کر سلامتی کونسل کے کان پر کوئی ادنیٰ سی جُوں بھی رینگ سکتی ہے؟ کیا یہ پھسپھسے اور بودے بیانات پڑھ کر دنیا کا کوئی عام یہودی بھی متاثر ہو سکتا ہے؟ مسلم حکمرانوں سے زیادہ سنجیدہ کردار تو کچھ غیر مسلم ممالک ادا کر رہے ہیں، وسطی امریکی مُلک بولیویا نے غزہ میں اسرائیلی درندگی پر محض دکھ کا اظہار نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں جب کہ چِلّی اور کولمبیا اپنے سفارت کاروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا چکے ہیں۔ اس سے قبل بھی بولیویا نے 2009 ء میں اسرائیل سے اس وقت سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جب اس نے غزہ پر بم باری کی تھی۔ بدھ کے روز کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں اسرائیلی حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا ہے۔ اس نے واضح طور کہا کہ اگر اسرائیل، غزہ میں فلسطینیوں پر تشدد نہیں روکتا تو ہم وہاں موجود نہیں ہوں گے۔
درد سے لدی آہ و بکا ان 57 حکمرانوں کے کان میں سرگوشی تک نہ کر سکی، وفا اور مَحبّت سے آشنا وہ توانا جذبے جو کلمہ ء طیّبہ نے ہمارے دلوں میں جاگزیں کیے تھے وہ کہِیں دُور۔۔۔بہت ہی دُور بھٹک گئے ہیں۔وہ سارے ایمان آفریں احساسات آئی ایم ایف کی اوٹ میں چُھپے بیٹھے ہیں اور آج منہ دِکھانے کے قابل تک نہیں، اور مجھے کہنے دیجیے کہ ان جنوں خیز جذبوں کی مضبوط بانہوں میں أج چوڑیاں پہنا دی گئی ہیں، دریاؤں میں کود جانے والے اور دشتِ بے اماں میں دوڑتے پھرتے ایسے تمام احساسات کی ٹانگیں زنجیر بپا کر دی گئی ہیں اور ان کے حمیت سے تنے سَروں کے بالوں میں پونیاں سج چکی ہیں، سو، اے فلسطین کے بے یارو مددگار مظلوم و مقہور لوگو! ابھی اسرائیلیوں کے ہاتھوں کٹتے رہو، ابھی ان کے میزائلوں کے سامنے بھسم ہوتے رہو کہ ہم سب تو غلام ہیں، اسی امریکی ادارے آئی ایم ایف کے غلام، جس کے سامنے آج ہمارے حکمران التجاؤں، فریادوں اور گزارشوں پر مبنی الفاظ ادا کرتے ہوئے بھی خوف زدہ ہیں کہ کہیں امداد کی رقم نہ روک لی جائے۔ اس لیے ابھی کٹتے رہو۔۔۔ابھی چیختے چِلّاتے رہو! ابھی اپنے ہی گھروں میں ڈرے، سہمے اور سمٹے موت کا انتظار کرتے رہو۔ افتخار عارف کا شعر ہے:-
دَر و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں ؟
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے ؟

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )