سوال (4417)

محترم علماء کرام! میں آپ سے ایک مسئلے کے بارے میں راہنمائی کا طلبگار ہوں، کیا “غزوۂ ہند” کے بارے میں احادیث صحیح سند سے ثابت ہیں؟
اگر ہیں تو:
1. ان احادیث کا مفہوم اور مصداق کیا ہے؟
2. کیا یہ ماضی میں پورا ہو چکا ہے (جیسے محمد بن قاسم یا محمود غزنوی کے حملات)، یا یہ آئندہ کسی زمانے میں ظاہر ہونے والا ہے؟
3. کیا اس غزوے کا تعلق قربِ قیامت کے واقعات یا امام مہدی اور سیدنا عیسیٰ ؑکے نزول سے ہے؟
4. اس بارے میں اہل علم کی راجح آراء اور قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح مؤقف کیا ہے؟
آپ حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں، تاکہ میری اور عام مسلمانوں کی درست رہنمائی ہو سکے۔ جزاکم الله خیراً

جواب

صرف ایک حدیث حسن سند سے ثابت ہے. [سنن النسائی، حدیث نمبر : 3175]

فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ

حدیث کا مفہوم واضح ہے، پہلے ہند کا اطلاق ایک وسیع ترین جگہ پر ہوتا تھا، ابھی وہ سکڑ گئی ہے، وہ ہندوستان کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، لہذا غزوہ ہند سے اس ہند کو خارج تو نہیں کیا جا سکتا، باقی دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معرکے پہلے ہوئے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پہلے بھی ہوئے ہیں، یہ تعین نہیں ہے کہ یہ جنگیں ختم کب ہونگی، ممکن ہے کہ موجودہ جنگ غزوہ ہند کا پیش خیمہ ہو۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے، تو حرف آخر کوئی چیز نہیں ہے، باقی اہل علم نے کوئی بھی ایسی بات ذکر نہیں کی کہ اس کا تعلق آخری دور یعنی دور مھدی یا دور عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہے، یہ بات اہل علم نے نہیں کی، باقی نسائی کی حدیث میں اس کا ذکر عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہے، یہاں سے کچھ علماء اس بات کی طرف چلے گئے ہیں کہ یہ جنگ بڑھتے بڑھتے عیسی علیہ السلام کے دور تک چلی جائے گی، عیسی علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے، اور دجال بھی آئے گا، اب وہاں تو ذکر ہے کہ جنگ عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہوگی وہ تیر و تلوار سے ہوگی، بظاہر ایسا کوئی دیکھنے میں نہیں آتا، باقی راجح قول کیا ہے تو اس حوالے سے راجح قول کسی کو بھی نہیں کہہ سکتے، بس احتمالات ہے، ہمیں بھی احتمالات کے ساتھ گنجائش رکھنی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ