سوال (4851)

گھریلو مسائل پر جھگڑا ہو جانے پر ایک دوسرے کو مباہلہ کی دعوت دینا کیسا ہے؟ کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا ہے اس کا فیصلہ مباہلہ سے کرتے ہیں؟

جواب

اس جیسے گھریلو مسائل میں مباہلہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہاں صرف اپنی سچائی کے ثبوت کے لئے یا تو ثقہ وعادل گواہ ہو اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو تب رب العالمین کو گواہ بنا کر بات کی جائے یا پھر صبر کو تھامے ہوئے اپنا معاملہ الله تعالى کے سپرد کر دیا جائے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

یاد رہے کہ مباہلہ حق و باطل کے مابین فیصلے کے لیے رکھا گیا ہے، گھریلوں مناقشات یا جھگڑے اس درجے کے نہیں ہوتے، اور مباہلہ کو اس طرح ہر بات میں لانا صحیح نہیں ہے، جس ہر بات پہ قسم اٹھانا صحیح نہیں ہے، یہ ایک معیوب عمل ہے، مباہلہ، لعان اور قسم ان کو ہلکا نہیں لینا چاہیے، یہ لا علمی اور جہالت ہے، گھریلو جھگڑے بات، گفتگو اور مذاکرات سے حل ہو سکتے ہیں، قرائن دیکھے جا سکتے ہیں، گواہیاں لی جا سکتی ہیں، انکار کرنے والے سے قسم اٹھوائی جا سکتی ہے، اس طرح کے طریقوں کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، کسی کو حکم مقرر کیا جا سکتا ہے، مباہلہ کو اتنا ہلکا سمجھ کر گھریلو معاملات میں نہیں لانا چاہیے، الا یہ کہ کوئی صورت نہ بن رہی ہو، معاملہ گھمبیر ہو، پھر ممکن ہے کہ اس طرف چلے جائیں، غالباً سیدنا عکرمہ یا عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ جو ازواج کو اہل بیت نہیں مانتا، ہم اس کےساتھ مباہلے کے لیے تیار ہیں، اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے، لیکن کوشش یہ ہو کہ گھریلو مسائل مذاکرات سے حل کریں، مباہلہ کی باری نہ آئے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

مباہلہ کا تعلق ہمارے دین میں ایل خاص مقام کے ساتھ ہے، اس کو ہر چھوٹے بڑے جھگڑے میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، مباہلہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کو آپ جھوٹے پر لگا رہے ہیں، یہ اس وقت کیا جاتا ہے، جب بات دلیل سے حل نہ ہو، دونوں فریق دین کی طرف نسبت کرنے والے ہوں، ان میں سے ایک کو کھولا جھوٹا ثابت کرنا ہو۔
قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ سورۃ آل عمران آیت نمبر: 61 میں آیا ہے، نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کے لیے آیا تھا، وہ دعوت مباہلہ اہل کتاب کو دی گئی تھی، اس سے قبل مذاکرت اور مناظرے سب ہو چکے تھے، وہ ایک عقیدے کے مسئلہ پر مباہلہ ہو رہا تھا۔
اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ کیا پر مسئلے میں مباہلے کی دعوت دی جائے گی، میں سمجھتا ہوں کہ گھریلو مسائل اور کاروباری تنازعات میں مباہلے کی دعوت دینا سنت کے خلاف ہے اور یہ انتہائی غیر سنجیدہ عمل ہے، صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ میں سے کسی سے بھی یہ عمل ثابت نہیں ہے کہ کسی نے ایسے معاملات پر مباہلہ کیا ہو۔
وجہ کیا ہے، دیکھیں مباہلہ کرنے والا جھوٹا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کو دعوت دے رہا ہوتا ہے، اس کے لیے یہ تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
گھریلو معاملات دلائل اور ثالثی سے حل ہو سکتے ہیں، بجائے اس کے اس بات کی طرف جائیں، جس کی ہمیں اجازت ہی نہیں ہے، شریعت نے ہمیں بتایا ہے کہ “حَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهٖ وَحَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهَا‌” حکم مقرر کیا جائے، یا شریعت کی روشنی میں فیصلہ کریں، اگر فیصلہ نہ ہو سکے تو عدالت کی طرف رجوع کریں، طلاق یا خلع کی طرف آئیں، مباہلہ سے اجتناب کیا جائے، شرعی حل جو ہیں، ان کی طرف آئیں۔ ایسے معاملات میں تھوڑے سے صبر و تحمل کی ضرورت ہے، اگر اس سے مراد ازدواجی معاملات ہیں تو شریعت نے اس کے لیے ایک مکمل رہنمائی دی ہے۔ اس کی طرف رجوع کریں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ