سوال (2820)
غسل سے پہلے وضو کرنا تو سنت ہے البتہ غسل کے بعد وضو کرنے کا حکم نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے، چاہے اس نے غسل سے پہلے وضو کیا ہو یا نہ کیا ہو کیوں کہ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب اس کے غسل سے وضو کے اعضا بھی دھل جاتے ہیں تو غسل کرنے سے وضوء بھی ہو جاتا ہے۔ اس لیے معاملے میں مطمئن رہتے ہوئے کسی بھی شک اور غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
چنانچه سنن الترمذی میں ہے کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔ یہ روایت ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ کرام اور تابعین عظام کا بھی یہی مذہب ہے کہ غسل کے بعد وضو نہیں کرنا چاہیے۔
[سنن الترمذی حدیث : 107، رد المحتار، فتاوی عثمانی]
جواب
وضو غسل کا حصہ ہے، تو جب غسل کریں گے تو وضو ہو جائے گا ان شاءاللہ، اس کے بعد اگر وضو قائم ہے تو نماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔
اور اگر وضو قائم نہیں اور نماز پڑھنی ہو تو وضو دوبارہ کرنا پڑے گا۔
فضیلۃ العالم ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
سائل:
اگر غسل سے پہلے وضو نہیں کیا تو بھی وضو ہوجائے گا غسل کرنے سے؟ چونکہ غسل سے وضو کے اعضاء دھل گئے ہیں لہذا وضو ہوگیا۔
یہ ٹھیک ہے؟
جواب:
نہیں جی، وضوء ایک مستقل عمل ہے۔ اور اس کا ایک طریق کار ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
غسل میں وضو شامل ہے، ہاں اگر کوئی غسل کے ساتھ وضو نہیں کرتا یعنی مسنون طریقے سے نہیں غسل کرتا تو پھر تو وضو کرنا پڑے گا بعد میں جب نماز پڑھنی ہو
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ
عرب کا فتویٰ اسی پر ہے ،پاک و ہند والے نہیں مانتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
ایک شخص تالاب میں چھلانگ لگائے اور باہر نکل کر نماز پڑھ لے، یہ تو عجیب سی بات ہے۔
جواب:
ماننے والے نیت کا اعتبار کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اوپر جو سنن ترمذی سے روایت نقل کی گئی ہے اگر اس روایت کے دیگر طرق اور باب کو دیکھ لیتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے، پہلی بات کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غسل جنابت کی راویہ خود سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا ہیں اور آپ فرماتی ہیں۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ يُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِي المَاءِ، فَيُخَلِّلُ بِهَا أُصُولَ شَعَرِهِ، ثُمَّ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ غُرَفٍ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ يُفِيضُ المَاءَ عَلَى جِلْدِهِ كُلِّهِ. [صحیح البخاری : 248]
آپ دیکھ لیں کہ غسل جنابت سے پہلے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نماز جیسا وضو فرماتے تھے پھر آگے ساری تفصیل ہے۔
تو اگر دوران غسل نواقض وضوء والا کوئی بھی عمل سرزد نہیں ہوا ہے تو مسلمان مرد وخواتین اسی غسل سے نماز ادا کر سکتے ہیں الگ سے وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تو جس روایت کو سنن ترمذی: 107 سے نقل کیا گیا ہے اس کا تعلق بھی غسل جنابت سے ہے۔
جیسا کہ امام ابن أبی شیبہ اسی روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:
ﻻ ﻳﺘﻮﺿﺄ ﺑﻌﺪ اﻟﻐﺴﻞ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ
[مصنف ابن أبی شیبہ : 744 ﻓﻲ اﻟﻮﺿﻮء ﺑﻌﺪ اﻟﻐﺴﻞ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ]
یہی الفاظ سنن ابن ماجه : 579 میں ہیں لیکن یہ روایت ہی ضعیف ہے اس کے کسی بھی طریق میں ابو اسحاق السبیعی کے سماع کی صراحت نہیں ہے اور بعض طریق میں شریک القاضی سیئ الحفظ راوی ہیں
امام ابو عوانہ نے اس حدیث سے پہلے جسے ہم نے صحیح البخاری سے نقل کیا ہے یوں عنوان قائم کرتے ہیں:
ﺑﻴﺎﻥ ﻏﺴﻞ ﻣﺎ اﺑﺘﺪﺃ ﺑﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﻏﺴﻠﻪ ﻭﺃﻧﻪ اﺑﺘﺪﺃ ﺑﻐﺴﻞ ﻳﻤﻴﻨﻪ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ، ﻭاﻻﺑﺘﺪاء باﻟﻮﺿﻮء، ﺛﻢ ﻏﺴﻞ اﻟﺠﺴﺪ، ﻭاﻟﺪﻟﻴﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﻮﺿﻮء ﺑﻌﺪ اﻟﻐﺴﻞ [صحيح أبي عوانة :قبل حديث : 918 ،919 3/119]
تو جس غسل کے بعد وضو نہ کیے جانے کا ذکر ہے اور جسے سلف صالحین نے اختیار کیا وہ یہی غسل جنابت ہے جس سے پہلے وضو کا اہتمام ہو اور نواقض وضو میں سے کوئی چیز واقع نہیں ہو تو غسل کے بعد دوبارہ سے وضو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
امام ترمذی نے اس ضعیف روایت کے بعد جو لکھا اس کا یہی معنی و مراد ہے۔
امام ترمذی لکھتے ہیں:
ﻭﻫﺬا ﻗﻮﻝ ﻏﻴﺮ ﻭاﺣﺪ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭاﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ: ﺃﻥ ﻻ ﻳﺘﻮﺿﺄ ﺑﻌﺪ اﻟﻐﺴﻞ
[سنن ترمذی : تحت : 107]
چند ایک آثار ملاحظہ کریں:
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا أبو معاوية عن عاصم الأحول عن غنيم بن قيس عن ابن عمر: سئل عن الوضوء بعد الغسل؛ فقال: وأي وضوء أعم من الغسل؟
[مصنف ابن أبي شيبة : 748 ،مصنف عبد الرزاق : 1038 صحيح]
حدثنا جرير عن منصور عن إبراهيم قال: جاء رجل إلى علقمة، فقال له: إن بنت أخيك توضأت بعد الغسل، فقال: إما إنها لو كانت عندنا لم تفعل ذلك؛ وأي وضوء أعم من الغسل؟
[مصنف ابن أبي شيبة : 751 صحيح]
حدثنا يحيى بن سعيد عن المهلب بن أبي حبيبة، سئل جابر بن زيد: عن رجل اغتسل من الجنابة، فتوضأ وضوءه للصلاة، فخرج من مغتسله أيتوضأ؟ قال: لا؛ يجزئه أن يغسل قدميه.
[مصنف ابن أبي شيبة : 753 صحيح]
حدثنا وكيع عن معاذ بن العلاء عن سعيد بن جبير قال: سألته عن الوضوء بعد الغسل من الجنابة؟ فكرهه
[مصنف ابن أبي شيبة : 754 صحيح]
حدثنا وكيع عن جعفر بن برقان عن عكرمة في الرجل يغتسل من الجنابة وتحضره الصلاة أيتوضأ؟ قال: لا
[مصنف ابن أبي شيبة : 755 صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻲ ﻳﻐﺘﺴﻞ، ﺛﻢ ﻳﺘﻮﺿﺄ ﻓﺄﻗﻮﻝ: ﺃﻣﺎ ﻳﺠﺰﻳﻚ اﻟﻐﺴﻞ، ﻭﺃﻱ ﻭﺿﻮء ﺃﺗﻢ ﻣﻦ اﻟﻐﺴﻞ؟ ﻗﺎﻝ: ﻭﺃﻱ ﻭﺿﻮء ﺃﺗﻢ ﻣﻦ اﻟﻐﺴﻞ ﻟﻠﺠﻨﺐ، ﻭﻟﻜﻨﻪ ﻳﺨﻴﻞ ﺇﻟﻲ ﺃﻧﻪ ﻳﺨﺮﺝ ﻣﻦ ﺫﻛﺮﻱ اﻟﺸﻲء ﻓﺄﻣﺴﻪ ﻓﺄﺗﻮﺿﺄ ﻟﺬﻟﻚ
[مصنف عبد الرزاق : 1038 صحيح]
یہاں بھی مراد غسل جنابت ہے جس سے پہلے وضو ہوتا ہے۔ کیونکہ صرف غسل کی بنیاد پر وضو نہ کیے جانے پر کوئی شرعی حکم اور دلیل و قرینہ موجود نہیں ہے۔ البتہ وضو کیے بغیر نماز کے قبول نہ ہونے پر صراحت و دلیل صحیح مسلم میں موجود ہے۔
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﺫا ﻟﻢ ﺗﻤﺲ ﻓﺮﺟﻚ ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﺗﻘﻀﻲ ﻏﺴﻠﻚ ﻓﺄﻱ ﻭﺿﻮء ﺃﺳﺒﻎ ﻣﻦ اﻟﻐﺴﻞ
[مصنف عبد الرزاق : 1039 صحيح]
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ: ﺳﺌﻞ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﻮﺿﻮء ﺑﻌﺪ اﻟﻐﺴﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻱ ﻭﺿﻮء ﺃﻓﻀﻞ ﻣﻦ اﻟﻐﺴﻞ
مصنف عبد الرزاق : 1040 سنده حسن لذاته عبد الله بن عمر العمرى کی خاص نافع سے روایت صالح ہوتی ہے
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﻣﻄﺮﻑ، ﻋﻦ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﺷﺠﻊ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ: اﻟﻮﺿﻮء ﻣﻦ اﻟﻐﺴﻞ ﺑﻌﺪ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻟﻘﺪ ﺗﻌﻤﻘﺖ ﻳﺎ ﻋﺒﺪ ﺃﺷﺠﻊ
[مصنف عبد الرزاق : 1041 متنه صحيح]
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻗﺎﻝ: ﺳﺌﻞ اﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ ﻋﻦ اﻟﻮﺿﻮء ﺑﻌﺪ اﻟﻐﺴﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ، ﻭﻟﻜﻨﻪ ﻳﻐﺴﻞ ﺭﺟﻠﻴﻪ
[مصنف عبد الرزاق : 1044 صحیح]
امام ابن المنذر حدیث عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے بعد جو سندا ضعیف ہے کہتے ہیں:
ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻴﻤﻮﻧﺔ ﻭﻋﺎﺋﺸﺔ ﺫﻛﺮ ﻭﺿﻮء اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺒﻞ اﻻﻏﺘﺴﺎﻝ ﻭﻛﻞ ﺫﻟﻚ ﻣﻮاﻓﻖ
[الأوسط لابن المنذر :2/ 129]
پھر ﺫﻛﺮ اﻟﻮﺿﻮء ﻗﺒﻞ اﻻﻏﺘﺴﺎﻝ
کے معا بعد یہ اثر نقل کرتے ہیں۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻬﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻤﺎﺭ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺼﻌﺐ اﻟﻘﺮﻗﺴﺎﻧﻲ، ﺛﻨﺎ اﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻯ ﺃﻥ اﻟﻐﺴﻞ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ ﻳﺠﺰﻱ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﻣﻦ اﻟﻮﺿﻮء
الأوسط لابن المنذر : 673 سنده ضعيف لكن له شواهد صحيحة كما مر
ایک موضوع کے تمام دلائل کو جمع کرنے کے بغیر ایک مفتی و محقق کا کسی مسئلہ کا نتیجہ و حکم اخذ کرنا اس کی شایانِ شان نہیں ہے کیونکہ ایک چیز کہیں مبھم ذکر ہوئی تو کہیں مفسر،کہیں مجمل تو کہیں مفصل اس لیے مکمل احاطہ و دلائل جمع کرنے اور قرائن و حکم شرعی دیکھ کر ہی مسئلہ کی اصل حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے اور راجح و مرجوح تک پہنچا جا سکتا ہے یا تطبیق ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
تو ان ادلہ و تصریحات کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ اگر غسل جنابت کیا ہے اور شروع میں مسنون وضو کر لیا دوران غسل کوئی نواقض وضوء والا کوئی عمل لاحق نہیں ہوا تو از سر نو وضو کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے الا کہ نواقض وضوء سے کوئی چیز پیش آ چکی ہو تو تب نماز کے لیے دوبارہ سے وضوء کا اہتمام کیا جائے گا اور اگر صرف عام غسل کیا ہے تو وہ وضو سے کفایت نہیں کرے گا بلکہ نماز کے لیے الگ سے وضو کرنا ہو گا کیونکہ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ صرف غسل کرنے سے ہی نماز پڑھ لی جائے اور یہ کہ ایسا غسل وضو سے کفایت کر جاے گا اور اگر کوئی شخص عام غسل کرتا اور وضو کا اہتمام کیے بغیر کوئی عبادت بجا لاتا ہے تو وہ صریح طور پر گنہگار ہے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ﻻ ﺗﻘﺒﻞ ﺻﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ
[صحيح مسلم: 224]
اس حدیث پر حافظ نووی نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔
ﺑﺎﺏ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﻄﻬﺎﺭﺓ للصلاة
اور اسی باب کے تحت یہ حدیث بھی ہے۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻻ ﺗﻘﺒﻞ ﺻﻼﺓ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺇﺫا ﺃﺣﺪﺙ ﺣﺘﻰ ﻳﺘﻮﺿﺄ
[صحیح مسلم : 225]
امام بخاری اسی حدیث أبی ھریرہ رضی الله عنہ کو اس باب کے تحت لائے ہیں۔
ﺑﺎﺏ: ﻻ ﺗﻘﺒﻞ ﺻﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ
[صحیح البخاری : 135]
معلوم ہوا یہاں بغیر طھور سے خاص وضو مراد ہے۔
اور اگر جسم و لباس پاک نہیں تو انہیں بھی نجاست سے پاک کرنا ضروری ہے، یعنی اگر جسم و لباس پر پیشاب کے چھینٹے ہیں تو ان کا ازالہ کرے غسل واجب ہو تو غسل کرے۔
تو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نماز کے لیے وضو شرط ہے عام غسل
کافی نہیں ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل:
شیخ محترم ایک شخص ویسے غسل کرتا ہے، مطلب اس پر جنابت والا غسل واجب نہیں تھا، لیکن وہ غسل کرتا ہے اور جس طرح غسل جنابت کیا جاتا ہے، اسی طرح غسل کرتا ہے، تو کیا اس شخص کو بھی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا؟
جواب:
جی اصل چیز وضو ہے جب وضو ہے تو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ