سوال (68)
غسل کے بعد آخر میں پاؤں دھونے کے بارے میں علت بیان کی جاتی ہے کہ پہلے ایسا تھا کہ جس جگہ وضو کرتے تھے تو وہاں پانی اور کیچڑ وغیرہ جمع ہو جاتا تھا اس لیئے آخر میں پاؤں دھوتے تھے ، کیا اب بھی اسکا حکم ہے ؟
جواب
ممکن ہے کسی عالم دین اور صاحب فراست نے یہ بات کی ہو کہ آخر میں پیر دھونے کی علت یہ تھی کہ کیچڑ وغیرہ تھا ، بہرحال ممکن ہے کسی نے یہ بات کی ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ شریعت ہر بات کی علت بتائے ۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ترتیب بالکل واضح ہے ، امت کا اجماع بھی بالکل واضح ہے ۔اگر علت نہ بھی ملے تو حکم تعبدی ہے ۔ جیسے بھت ساری چیزیں ہیں ان کے علت نہیں ملتی ہے ۔ اب خنزیر کیوں حرام ہے اس کی علت کے لیے علماء نے کوشش کی ہے ۔ عورت کو کہا کہ عدت گزارو علت کیا ہے ، اگر علت استبراء رحم ہے تو وہ ایک مہینے میں ظاہر ہوجاتا ہے ، چار مہینے دس دن کیوں ہے ۔ اس طرح بہت ساری باتیں ہو سکتی ہیں ، ہاتھ باندھنا ، ہاتھ چھوڑنا ، انگلی ہلانا وغیرہ جہاں علت مل گئی شرعاً تو ٹھیک ہے ، اگر کسی کی رائے ہے تو ٹھیک ہے ، حقیقت یہی ہے کہ یہ حکم تعبدی ہے ، امر الہی اور امر رسول ہے ، لھذا مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں ، آخر میں پیر دھوتے ہیں ، آخر میں پیر دھونا چاہیے ، اس لیے کوئی جگہ وضوء کے دوران خشک رہ جائے تو اس پہ ہاتھ نہیں پھیرا جاتا بلکہ وہاں سے دوبارہ جاکر وضوء سیدھا کیا جاتا ہے کیونکہ وضوء میں ترتیب واجب ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ