سوال (3665)

کیا یہ درست ہے؟
(1) جنابت کے غسل میں اگر مضمضہ اور استنشاق (کُلّی اور ناک صفائی) کے ساتھ کسی بھی طرح سے سارے جسم پر پانی ڈال لیا جائے تو اس سے بھی غسلِ طہارت مکمل ہو جاتا ہے اور نماز کے لیے کافی ہے۔
(2) بعض لوگ غسلِ جنابت کا ایک ہی طریقہ ضروری سمجھتے ہیں جو تفصیلاً مروی ہے کہ پہلے ہاتھ، پھر شرم گاہ، پھر مکمل وضو، پھر تین بار سر دھونا، اور پھر باقی ماندہ جسم پر پانی بہانا۔
یاد رکھیے کہ یہ دوسرا طریقہ بہتر اور افضل ضرور ہے، مگر لازم وواجب نہیں کہ ہمیشہ اسی کی پابندی کی جائے، بلکہ پہلا طریقہ بھی کافی ہے اور اس کے بعد نماز اور عبادت ادا کی جا سکتی ہے۔ نئے سرے سے پھر سے وضو کی ضرورت نہیں ہے۔

جواب

عرب علماء کا یہی کہنا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ انکار حدیث کا ایک روایتی طریقہ ہے، جس طرح بہت سارے مسائل میں ہمارے بھائیوں نے سنت کی مخالفت اور حدیث کی مخالفت میں چور راستے نکالے ہیں، یہ بھی اس طرح ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریر میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، لیکن اپنے طریقے پر ایک آیت یا حدیث نہیں پڑھی گئی ہے، لہذا غسل جنابت کا اصل طریقہ وہ ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ