سوال (2227)
کیا غسل جمعہ اور غسل جنابت کی اکٹھی نیت کی جا سکتی ہے؟
جواب
جی ہاں جمہور اہل علم کے نزدیک غسل جنابت اور جمعہ کے غسل کی اکھٹی نیت کی جا سکتی ہے۔
قال النووي في المجموع: “قال ابن المنذر: أكثر العلماء يقولون: يجزئ غسل واحد عن الجنابة والجمعة، وهو قول ابن عمر ومجاهد ومكحول ومالك والثوري والأوزاعي والشافعي وأبي ثور، وقال أحمد: أرجو أن يجزئه”
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی غسل، غسل جنابت اور جمعہ کے غسل سے کفایت کر جائے گا، جو کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما، مجاہد، مکحول، مالک، ثوری، اوزاعی، شافعی، ابو ثور رحہم اللہ کا قول ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں امید کرتا ہوں کہ ایک ہی غسل کفایت کر جائے گا۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث مقصود احمد مدنی حفظہ اللہ
جی کفایت کر جائے گا ، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
“إنما الأعمال بالنيات”
«بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے»
[صحیح البخاری: 1 ]
امام بیھقی لکھتے ہیں:
ﺑﺎﺏ اﻻﻏﺘﺴﺎﻝ ﻟﻠﺠﻨﺎﺑﺔ ﻭاﻟﺠﻤﻌﺔ ﺟﻤﻴﻌﺎ ﺇﺫا ﻧﻮاﻫﻤﺎ ﻣﻌﺎ ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: “ﺇﻧﻤﺎ اﻷﻋﻤﺎﻝ ﺑﺎﻟﻨﻴﺎﺕ ﻭﻟﻜﻞ اﻣﺮﺉ ﻣﺎ ﻧﻮﻯ” [السنن الکبری للبیھقی: 1/ 445]
اگر نیت دونوں غسل کی نہ بھی ہو تو تب بھی الگ سے غسل کرنا ضروری نہیں ہے، جیسے ظہر وغیرہ کی پہلی رکعات ادا کرنے سے الگ سے تحية المسجد کا پڑھنا ضروری نہیں ہے۔
[مزید دیکھیے السنن الکبری للبیھقی]
ﺑﺎﺏ ﻫﻞ ﻳﻜﺘﻔﻲ ﺑﻐﺴﻞ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ ﻋﻦ ﻏﺴﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻨﻮﻫﺎ ﻣﻊ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ
ﻋﻦ ﻃﺎﻭﺱ اﻟﻴﻤﺎﻧﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ ﻻﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: ﺯﻋﻤﻮا ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: “اﻏﺘﺴﻠﻮا ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻏﺴﻠﻮا ﺭﺅﻭﺳﻜﻢ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻧﻮا ﺟﻨﺒﺎ ﻭﻣﺴﻮا ﻣﻦ اﻟﻄﻴﺐ ﻗﺎﻝ : ﻓﻘﺎﻝ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: ﺃﻣﺎ اﻟﻄﻴﺐ ﻓﻼ ﺃﺩﺭﻱ، ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻐﺴﻞ ﻓﻨﻌﻢ [صحیح ابن حبان : 2782 و اللفظ له مسند أحمد بن حنبل : 2383 سنده حسن لذاته لأجل ابن إسحاق]
اس حدیث کے بعد امام ابن حبان ن لکھتے ہیں:
ﻗﻮﻟﻪ: “ﺇﻻ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻧﻮا ﺟﻨﺒﺎ” ﻓﻴﻪ ﺩﻟﻴﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ اﻻﻏﺘﺴﺎﻝ ﻣﻦ اﻟﺠﻨﺎﺑﺔ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺑﻌﺪ اﻧﻔﺠﺎﺭ اﻟﺼﺒﺢ ﻳﺠﺰﺉ ﻋﻦ اﻻﻏﺘﺴﺎﻝ ﻟﻠﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻓﻴﻪ ﺩﻟﻴﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻏﺴﻞ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻟﻴﺲ ﺑﻔﺮﺽ، ﺇﺫ ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻓﺮﺿﺎ ﻟﻢ ﻳﺠﺰﺉ ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ ﻋﻦ اﻵﺧﺮ
[صحیح ابن حبان: 7/ 22]
اس حدیث کے نقل کی تعلیق میں موسوعہ حدیثیہ کے محققین لکھتے ہیں:
ﻗﻮﻟﻪ: اﻏﺘﺴﻠﻮا ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻜﻮﻧﻮا ﺟﻨﺒﺎ”، ﻗﺎﻝ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻓﻲ “اﻟﻔﺘﺢ” 2/373 ﻣﻌﻨﺎﻩ: اﻏﺘﺴﻠﻮا ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻥ ﻛﻨﺘﻢ ﺟﻨﺒﺎ ﻟﻠﺠﻨﺎﺑﺔ، ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻜﻮﻧﻮا ﺟﻨﺒﺎ ﻟﻠﺠﻤﻌﺔ، ﻭﺃﺧﺬ ﻣﻨﻪ ﺃﻥ اﻻﻏﺘﺴﺎﻝ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻟﻠﺠﻨﺎﺑﺔ ﻳﺠﺰﻯء ﻋﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺳﻮاء ﻧﻮاﻩ ﻟﻠﺠﻤﻌﺔ ﺃﻡ ﻻ، ﻭﻓﻲ اﻻﺳﺘﺪﻻﻝ ﺑﻪ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﺑﻌﺪ.
ﻧﻌﻢ، ﺭﻭﻯ اﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ اﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ: “اﻏﺘﺴﻠﻮا ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻧﻮا ﺟﻨﺒﺎ”، ﻭﻫﺬﻩ ﺃﻭﺿﺢ ﻓﻲ اﻟﺪﻻﻟﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻄﻠﻮﺏ، ﻟﻜﻦ ﺭﻭاﻳﺔ ﺷﻌﻴﺐ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﺃﺻﺢ (ﻳﻌﻨﻲ اﻟﺘﻲ ﻓﻴﻬﺎ: ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻜﻮﻧﻮا ﺟﻨﺒﺎ) . ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ: ﺣﻔﻈﻨﺎ اﻹﺟﺰاء ﻋﻦ ﺃﻛﺜﺮ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭاﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ
[موسوعة حديثة/ مسند أحمد بن حنبل: 4/ 213]
اسی روایت کے تحت شرح صحیح البخاری لابن بطال : 2/ 484 میں لکھا ہے:
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ: ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﻧﺤﻔﻆ ﻋﻨﻪ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ: ﻳﺠﺰﺉ ﻏﺴﻞ ﻭاﺣﺪ ﻟﻠﺠﻨﺎﺑﺔ ﻭاﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ ﺻﺎﺣﺐ (اﻹﺷﺮاﻑ) ، ﻫﻮ اﻟﻘﺎﺋﻞ: ﻭﺭﻭﻳﻨﺎ ﻫﺬا ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻭﻣﺠﺎﻫﺪ، ﻭﻣﻜﺤﻮﻝ، ﻭﻣﺎﻟﻚ، ﻭاﻟﺜﻮﺭﻯ، ﻭاﻷﻭﺯاﻋﻰ، ﻭاﻟﺸﺎﻓﻌﻰ، ﻭﺃﺑﻰ ﺛﻮﺭ، ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ: ﺃﺭﺟﻮ ﺃﻥ ﻳﺠﺰﺋﻪ، ﻭﻫﻮ ﻗﻮﻝ اﺑﻦ ﻛﻨﺎﻧﺔ، ﻭﺃﺷﻬﺐ، ﻭاﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻭﻣﻄﺮﻑ، ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﺎﺟﺸﻮﻥ، ﻭاﺑﻦ ﻧﺎﻓﻊ۔ [صحیح البخاری لابن بطال: 2/ 484، الاوسط لابن المنذر: 4/ 43]
اس مسئلہ میں دونوں طرح کے اہل علم کے موقف کے لیے دیکھیے التمہید لابن عبد البر ، الاستذکار لابن عبد البر ، فتح الباری لابن رجب:8/ 91 وغیرہ
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺟﺮﻳﺮ، ﻋﻦ ﻟﻴﺚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﻟﻠﺠﻨﺎﺑﺔ ﻭاﻟﺠﻤﻌﺔ ﻏﺴﻼ ﻭاﺣﺪا
[مصنف ابن أبي شيبة: 5155 ضعيف]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺭﺑﻴﻊ اﻟﻤﺆﺫﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ اﻟﻠﻴﺚ، ﻋﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺐ، ﺃﻥ ﻣﺼﻌﺐ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ، ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻥ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻗﺎﻝ ﻟﻪ: اﻏﺘﺴﻞ ﻟﻠﺠﻤﻌﺔ ﻓﻘﺎﻝ: ﻟﻪ ﻗﺪ اﻏﺘﺴﻠﺖ ﻟﻠﺠﻨﺎﺑﺔ
[شرح معانی الآثار للطحاوى : 726 ،الاوسط لابن المنذر: 1778]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ