“گیارہ لاکھ فالوورز، لیکن جنازے پر چند لوگ”

گزشتہ روز ایک معروف ٹک ٹاکر ثناء یوسف دنیا سے رخصت ہوئیں۔ سوشل میڈیا(ٹک ٹاک) پر گیارہ لاکھ سے زائد فالوورز رکھنے والی، ویڈیوز پر لاکھوں لائکس لینے والی، انسٹاگرام و یوٹیوب پر لاکھوں کی مقبولیت رکھنے والی سترہ برس کی لڑکی… مگر جب جنازہ اٹھا، تو ساتھ دینے والے چند لوگ ہی تھے۔
یہ منظر آنکھیں نم کرنے والا بھی تھا اور دل کو جھنجھوڑ دینے والا بھی۔
کیا یہ دنیا کی اصل حقیقت نہیں ہے؟ کیا یہ ہمیں یہ نہیں بتا رہا کہ جس دنیا کے لیے ہم اپنی نیندیں، سکون، رشتے، وقت اور عزت سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، وہ دنیا ہماری موت کے بعد کتنی جلدی ہمیں بھلا دیتی ہے؟
یہ واقعہ صرف کسی ایک انسان کی موت کی خبر نہیں، یہ زندوں کے لیے ایک بڑی نصیحت ہے، ایک سخت پیغام ہے — کہ تمہارا اصل سرمایہ “لوگوں کی آنکھوں میں تمہاری عزت” نہیں، بلکہ “اللہ کے ہاں تمہاری قدر” ہے۔

سوشل میڈیا کی فریب دہ دنیا:

آج کی دنیا میں شہرت کا معیار فالوورز، ویوز اور لائکس بن چکا ہے۔
ایک وقت تھا جب کسی کی مقبولیت کا اندازہ اس کے اخلاق، خدمت، علم، تقویٰ اور تعلقات سے لگایا جاتا تھا۔ آج کل ایک وائرل ویڈیو، ایک مزاحیہ جملہ یا ایک دلکش تصویر انسان کو آسمان پر پہنچا دیتی ہے۔
لیکن اس عارضی شہرت کا انجام کتنا بے حقیقت ہے
گیارہ لاکھ فالوورز آپ کو لائکس تو دے سکتے ہیں، لیکن جنازے کو کندھا نہیں۔
ویوز آپ کے بینک بیلنس میں اضافہ تو کر سکتے ہیں، لیکن قبر کی تاریکی میں روشنی نہیں بن سکتے۔
کمنٹس میں دعائیں تو مل سکتی ہیں، لیکن وہ اخلاص کہاں جو ماں کی آنکھ سے نکلا ہوا آنسو یا دوست کے سینے سے لگ کر رو دینے سے ہوتا ہے؟

اصل تعلق — حقیقت یا فریب؟

جو لوگ ہماری پوسٹس پر ردِعمل دیتے ہیں، ہم ان سے دل لگا لیتے ہیں۔ ان کے تعریفی جملے ہمیں فخر اور غرور میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم واقعی “کچھ” ہیں۔
مگر جب ہم دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، تو یہی تعلقات بے جان ہو جاتے ہیں۔ فالوورز آگے بڑھ جاتے ہیں، کسی اور کو فالو کرنے۔

آج اگر جنازے میں چند لوگ آتے ہیں، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے دلوں میں جگہ بنائی تھی یا صرف اسکرینوں پر؟

سچا تعلق: خلوص، خدمت اور دین

دنیا کے جھوٹے تالیاں بجاتے ہجوم سے بہتر ہے چند وہ لوگ ہوں جو آپ کے لیے دل سے دعا کریں۔
گیارہ لاکھ فالوورز کا مطلب کچھ نہیں اگر آپ کے پڑوسی، آپ کے رشتہ دار، آپ کے قریبی دوست آپ سے ناراض ہوں۔
سوشل میڈیا پر وقت دینے سے بہتر ہے کہ ماں کی بات سن لی جائے، والد کے قدم دبا دیے جائیں، دوست کی دلجوئی کر لی جائے، اور دلوں میں جگہ بنائی جائے۔
قرآن کہتا ہے:

“یوم لا ینفع مال ولا بنون، إلا من أتی الله بقلب سلیم”

جس دن نہ مال نفع دے گا نہ اولاد، مگر وہی شخص کامیاب ہو گا جو اللہ کے پاس پاک دل لے کر آئے گا۔ (الشعراء: 88-89)

کامیابی کا معیار — اللہ کی رضا:

زندگی کا اصل مقصد فالوورز کی گنتی میں اضافہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت ہے۔
نہ فرشتے ویوز گنتے ہیں، نہ قبر میں فالورز کام آتے ہیں۔ وہاں صرف اعمال ساتھ جاتے ہیں۔
اللہ کے بندوں کی دلجوئی، محتاجوں کی مدد، سچائی پر ڈٹے رہنا، دین کے لیے جینا — یہ وہ چیزیں ہیں جو قبر میں روشنی بنیں گی۔
اگر تمہاری موت کے بعد صرف چند آنکھیں اشکبار ہوں، تو سمجھو تم نے حقیقت میں زندگی گزاری۔
اور اگر تمہاری تمام شہرت، ویوز، فالوورز، پیسہ، شہرت تمہیں تنہا چھوڑ دے، تو جان لو تم فریب کا شکار تھے۔
دنیا دھوکہ ہے، اور آخرت اصل حقیقت۔ اس حقیقت کو جیتے جی سمجھ لو، تاکہ کل پچھتانا نہ پڑے۔

 یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:دین کا کام ضرور مگر جماعتی تعصبات سے بالاتر ہوکر