سخت افسوس کی بات ہے کہ اب نوخیز مسلم اذہان مشرکوں کے ایجاد کردہ شرکیہ القاب سے متاثر ہوکر انہیں نہ صرف دہرانے لگے ہیں بلکہ ان کو فیس بک پر بھی پوسٹ کرنے لگے ہیں. ایک ایسا‫ ہی شرکیہ لقب ہے “گاڈ آف کرکٹ” یعنی “کرکٹ کا بھگوان” جس کو مشرک سچن تندولکر کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آج ایک مسلمان کو میں نے اسی لقب کو ویراٹ کوہلی کے لیے استعمال کرتے ہوئے دیکھا. افسوس صد افسوس. بھئی، مشرکوں کے لیے اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ تو ایک حقیر ذرے کو بھی بھگوان مان لیتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے لیے یہ اسلام کی بنیاد یعنی توحید سے ہی ہاتھ دھونا اور أکبر الکبائر یعنی شرک کا ارتکاب کرنا ہے. اسلام کے نزدیک گاڈ یعنی بھگوان یعنی خدا یعنی معبود صرف ایک ہے۔

ہر شے کا خدا وہی ایک ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور ہے ہی نہیں کہ کرکٹ کا خدا الگ، تو فٹبال کا خدا الگ، روشنی کا خدا الگ، تو تاریکی کا خدا الگ، ہوا کا خدا الگ، تو بارش کا خدا الگ، نثر کا خدا الگ، تو نظم کا خدا الگ، سخن کا خدا الگ، تو ماسوائے سخن کا خدا الگ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ مشرکوں کے عقائد ہیں۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے مشرک اگر سچن یا کوہلی کو “گاڈ آف کریکیٹ” کہیں تو یہ قابل فہم ہے کہ وہ ناسمجھ ہیں. ان کی ناسمجھی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ہر عیب سے پاک خدا، ہر ناکامی سے مبرا خدا، ناقابل شکست وناقابل تسخیر خدا کا اطلاق انسانوں کے لیے کر رہے ہیں اور وہ بھی ایسے انسانوں کے لیے جو نہ تو عیب سے پاک ہیں، نہ ہی ناکامی سے مبرا اور نہ ہی ناقابل شکست و ناقابل تسخیر، جنہوں نے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں نہ جانے کتنی ناکامیاں دیکھیں اور نہ جانے‫ کتنی ذلتیں برداشت کیں، ایسے انسانوں کو اگر کوئی کسی بھی چیز کا خدا کہتا ہے تو اس کے لیے اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے جو قرآن کریم نے کہا ہے: “أولئك كالأنعام بل هم أضل”. عقیدہ کے معاملے میں یہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور اسی لیے بدتر ہیں کہ وہ یہ سب کہتے کرتے ہیں. لیکن تمہیں کیا ہوا ہے، تم تو مسلمان ہو، تم کیوں دو ٹکے کے بدعقیدہ ناٹوں اور بداطوار دیوثوں کو بھگوان اور خدا بنا رہے ہو؟

ذرا سوچو تو کہ شرک سے متاثر ہوکر تم کن پستیوں کی طرف جا رہے ہو؟ تمہارا مشن تو کفر و شرک کی ان تاریکیوں کو ایمان وتوحید کی روشنیوں سے منور کرنا ہے، تمہاری آنکھیں ان سطحی جاہلوں کی جہالتوں سے کیوں خیرہ ہونے لگیں؟ ٹھہرکر سوچو اور اپنے آپ کو سنبھالو۔

ڈاکٹر شمس الرب خان