سوال (1420)

گوٹ مار کر بیٹھنے سے کیا مراد ہے ؟

وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْحُبْوَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ. [رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ]

حضرت معاذ بن انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے روز دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔ [رواہ الترمذی و ابوداؤد ]

جواب

کوئی شخص دیکھا ہوگا ، خطبے کے دوران ، تقریر کے دوران یا کبھی محفل میں دونوں پاؤں کو موڑ کر ، گٹھنے اٹھا لینا ، دونوں ہاتھوں کو لاکر آپس میں ملا دیتے ہیں ، تو گویا اپنے پیروں کو سنبھال کے بیٹھے ہوتے ہیں ، اس طریقے سے اپنی کمر کو سہارا دے رہے ہوتے ہیں ، اس کو گوٹ مار بیٹھنا کہتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

احتباء: یعنی گوٹ مار کر بیٹھنے کی صورت یہ ہے کہ دونوں ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے باندھ کر کھڑا رکھا جائے، اور سرین (چوتڑ) پر بیٹھا جائے، اس سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آتی ہے، اور ہوا خارج ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔

فضیلۃ العالم عبداللہ عزام حفظہ اللہ

حدیث معلول ہے۔ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا۔
امام ابوداؤد کا کلام مع حدیث یوں ہے ۔

حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حَيَّانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزِّبْرِقَانِ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ : شَهِدْتُ مَعَ مُعَاوِيَةَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَجَمَّعَ بِنَا، فَنَظَرْتُ فَإِذَا جُلُّ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَرَأَيْتُهُمْ مُحْتَبِينَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ.
قَالَ أَبُو دَاوُدَ : كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَحْتَبِي وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، وَشُرَيْحٌ، وَصَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَمَكْحُولٌ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، وَنُعَيْمُ بْنُ سَلَامَةَ قَالَ : لَا بَأْسَ بِهَا. قَالَ أَبُو دَاوُدَ : وَلَمْ يَبْلُغْنِي أَنَّ أَحَدًا كَرِهَهَا إِلَّا عُبَادَةَ بْنَ نُسَيٍّ.
امام ترمذي فرماتے ہیں:
وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَأَبُو مَرْحُومٍ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ، لَا يَرَيَانِ بِالْحِبْوَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ بَأْسًا

گھٹنوں کو اوپر کی جانب کھڑا کر کے ان کے گرد بازوں کا حلقہ یا گرفت بنا کر بیٹھنا دوران خطبہ سلف سے ثابت ہے۔
یہ مثال اس قاعدے کے تحت ہے جس میں ائمہ متقدمین موقوف کے ذریعے مرفوع کی علت بیان کرتے ہیں
واللہ اعلم۔
جیسا کہ امام ابو داؤد کے کلام سے ظاہر ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ