سوال (1347)

کسی دار الافتاء سے اس بارے میں فتویٰ درکار ہے:
کیا مسلمان کیلئے جائز ہے کہ وہ بغیر کسی طبی عذر کے ویگن یا ویجیٹیرئین بن جائے؟
سوال کا پس منظر یہ ہے کہ ویجیٹیرئینز یہ سمجھتے ہیں کہ جانوروں کو مار کر کھانا انکے ساتھ ظلم ہے۔ جبکہ ہمارا تو شعار ہی عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی ہے۔ اور ویگن تو جانور کیا، جانوروں سے حاصل شدہ کسی چیز، مثلاً دودھ اور انڈے کو بھی کھانے کے حق میں نہیں۔ حتی کہ جانوروں کی اون اور کھال سے بنے کپڑے بھی استعمال کرنے کے بھی خلاف ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ جانوروں پر ظلم اور انکا استحصال ہے۔
چونکہ یہ رجحان بہت سے لبرل خیالات کے مسلمانوں میں بھی عام ہو رہا ہے، یا کم از کم اسکو ان معنوں میں قبول ضرور کیا جا رہا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
لہذٰا باقاعدہ جواز یا عدم جواز کا فتویٰ درکار ہے۔
جزاکم اللہ خیرا

جواب

کسی بھی حلال چیز کو خود پر حرام قرار دینا درست نہیں، قرآن کریم اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
لم تحرم ما أحل اللہ لک؟
جو اللہ تعالی آپ کے لیے حلال قرار دیا ہے، آپ اسے اپنے لیے حرام کیوں قرارا دیا ہے؟
ہاں البتہ حرام قرار دیے بغیر اسے نہ کھانا اس کی اجازت شریعت میں موجود ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور ’ضب’ کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں اسے حرام نہیں کہتا، لیکن میں اسے کھانا پسند نہیں کرتا.
یہ اس سوال کا سیدھا اور سادہ سا جواب ہے ایک مسلمان کے لیے۔
لیکن اگر اس پر بطور نظریہ کے قائم رہنے والے لوگوں پر حکم اور فتوی درکار ہو تو اس کے لیے ان کا اپنا بیان اہم ہے۔ کیونکہ اس میں جو یہ کہا گیا ہے کہ جانوروں کو کھانا یہ ان پر ظلم ہے؟ تو اس نظریے کی بنیاد کیا ہے؟ اور کیا وہ گوشت کھانے والے مسلمانوں اور انبیاء و صالحین کو ظالم سمجھتے ہیں؟ اور کیا اس کی اجازت دینے والی شریعت اور اسے نافذ کرنے والی ذات اللہ رب العالمین کو ظالم سمجھتے ہیں؟ کیونکہ یہ سب چیزیں کفر ہیں، اگر کوئی مسلمان ہے تو ایسے نظریات سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
ان سب چیزوں پر کوئی اپنا کلیئر موقف دے، تو اس پر شرعی حکم اور فتوی جاری کیا جا سکتا ہے!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ