سوال (5909)
آج کل گورنمنٹ کے مختلف ادارے بطور سزا لوگوں کو اعضائے مخصوصہ سے محروم کر رہے ہیں جیسا کہ نیفے میں پستول کا چل جانا کی اصطلاح سے عام طور پر جانا جاتا ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ کیا کسی بھی جرم کی یہ سزا ہے کہ کسی کو اعضائے مخصوصہ سے محروم کیا جائے؟
یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام نے حدود اور تعزیر رکھی ہیں تو کیا بطور تعزیر یہ سزا دی جا سکتی ہے گورنمنٹ کی طرف سے؟
جواب
شرعی اصول یہی ہے سزا وہی دی جائے، جو شریعت نے مقرر کی ہے، حاکم وقت تعزیرا سزائیں دے سکتا ہے، لیکن تعزیر کے طور پر قتل کرنا یا کسی عضو سے محروم کرنا درست نہیں ہے.
اس حوالے سے غالبا پہلے بھی یہاں جواب دیا گیا تھا کہ اس قسم کے کیسز میں حرابہ کی سزاؤں سے استدلال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ حکومت جن لوگوں کے ساتھ یہ معاملات کر رہی ہے، یہ سب ایک آدھی بار کے مجرم نہیں، بلکہ مستقل اور عادی مجرم ہیں، اور بقول بعض ایسے لوگ ہیں، جن کی بار بار شکایات یا جن پر تھانوں میں پرچے وغیرہ موجود ہوتے ہیں، لیکن وہ قانونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر سزاؤں سے بچتے ہیں اور جرم میں لگے رہتے ہیں، لہذا حکومت نے ایمرجنسی میں جرائم کے انسدادا کے لیے اس قسم کے طریقے اپنائے ہیں۔
اس میں ایک احتمال یہ بھی موجود ہے کہ ادارے سزا دیتے نہیں، بلکہ ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیتے ہیں لیکن شو کرواتے ہیں کہ ہم نے سزا دی ہے، تاکہ جرم کے خلاف لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا ہو. واللہ اعلم.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ