سوال (5728)
ایک شخص جو گورنمنٹ آفس سے کام کروا کر دیتا ہے اور وہاں پہ آنے والے اخراجات کو ظاہر کرنے کی بجائے اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں اپ کا کام اتنے میں کروا دوں گا کیا یہ صورت جائز ہے؟ یا اس سے بہتر کوئی صورت ممکن ہے جس میں وہ بھی کچھ کما سکے کمیشن والی صورت کے علاوہ، اس کے کام سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔
جواب
عمومی طور پر اس طرح کے معاملات پر فتویٰ نہیں دیا جاتا، لیکن حالات کا جبر، موحدین جو تعداد اور وسائل میں کم ہیں، بعض جگہ حالت اضطرار میں دیکھائی دیتے ہیں، ابھی ادارے کرپشن کا شکار ہیں، کام جائز ہے، میرٹ پر ہو رہا ہے، کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے، پھر اس کی گنجائش ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جی بھائی شیخ محترم نے جواب دے دیا ہے میں کچھ مزید وضاحت کر دیتا ہوں۔
اگر تو آپ کا کام ناجائز ہے یا پھر جو بندہ آفس سے کام کرواتا ہے اس میں وہ طریقہ ناجائز اختیار کرتا ہے یعنی دوسروں کا کام رکوا کر آپ کا کام کرواتا ہے تو پھر تو یہ جائز نہیں۔
البتہ اگر آپ کا کام بھی جائز ہے اور جس طریقے سے وہ کام کروا رہا ہے اس میں کسی کا حق بھی نہیں مارا جا رہا صرف وہاں رشوت خوروں کا منہ بند کرنے کے خرچے ہیں یا وہاں انتظار وغیرہ کرنے کے خرچے ہیں تو اس کے لئے دو صورتیں ہیں ایک عزیمت دوسری رخصت۔
عزیمت کا رستہ تو یہ ہے کہ یہ نہ کریں اپنا حق لینے کے لئے انتظار کر لیں
البتہ رخصت یہ موجود ہے کہ آپ یہ طریقہ استعمال کر کے اپنا حق نکلوا سکتے ہیں۔
سوال کے آخر میں جو لکھا ہے کہ اس کام میں لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو اس سلسلے میں ایک نصیحت کرنی ہے کہ جوا میں بھی کچھ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ کچھ دوسروں کے نقصان کی قیمت پہ ہوتا ہے پس خالی لوگوں کا فائدہ نہیں دیکھنا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی کا حق مار کر تو کچھ کو فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ




