سوال (4965)
جی پی فنڈ کے بارے میں کیا تفصیلات ہیں؟
جواب
جی پی فنڈ جنرل پراویڈنٹ فنڈ کا مخفف ہے، جی پی فنڈ ایک عمومی بچت فنڈ ہے, یہ حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین کو دیا جاتا ہے، حکومت ہر مہینہ سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے کچھ پیسے کاٹتی ہے، جو جمع ہوتے رہتے ہیں، اور جب ملازم ریٹائر ہوتا ہے۔ تو وہ رقم اسے ادا کردی جاتی ہے۔اسی رقم کو جی پی فنڈ کہا جاتا ہے۔
اس کے جائز و ناجائز ہونے کی دو صورتیں ہیں:
1: جتنی رقم ہر ماہ تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے, آخر میں اتنی ہی رقم اس کو ادا کردی جائے. یہ تو بالکل جائز و حلال ہے. لا شک ولا ریب
2: دوسری صورت اور 98 فیصد جو رائج ہے کہ ہر ماہ جو کٹوتی کرکے رقم جمع کی جاتی ہے اس جمع شدہ رقم پر تقریباً ہر ماہ سود شامل کردیا جاتا ہے, اور آخر پر جو رقم ملتی ہے وہ اصل رقم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے, مثلاً اگر 60,70 ہزار اصل رقم(جی پی فنڈ) ہے تو دس سال بعد یہ رقم تقریباً اڑھائی لاکھ بن چکی ہوگی. جس میں کم از کم 2 لاکھ جو اضافی ہے وہ خالص سود ہے, یہ بالکل حرام ہے۔
اس رقم کو لینا حرام ہے. کیونکہ سود کا لین دین کرنا تو اللہ سے اعلان جنگ کے مترادف ہے.
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ ۞ [البقرة: 279]
اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
لہذا ہر سرکاری ملازم پر لازم ہے کہ وہ جی پی فنڈ ختم کروائے.
اس کے دو طریقہ ہیں:
1: اگر تو ابھی ملازمت شروع ہوئی تو جی پی فنڈ کے حوالے سے ایک فارم دیا جاتا,جس کے خانہ میں یہ آپشن ہوتا کہ آپنے سود لینا یا نہیں, تو ہمیں چاہیے کہ اسی خانہ میں اضافی(سودی) رقم لینے سے انکار کردیں. تو آخر پر ہمیں ہماری اصل رقم ہی ملے گی.
2: دوسرا یہ کہ اگر پہلے لاعلمی میں اس فارم پر سود سے منع کا نہیں لکھا تو اس صورت میں اسٹام نکلوا کر اس پر لکھا جائے کہ میں جی پی فنڈ سے سود ختم کروانا چاہتا ہوں.
اس طریقہ سے سودی رقم ہمیں نہیں دی جائے گی. بعض لوگوں کے شبہات ہوتے کہ ہم سودی رقم نکلوا کر غریبوں میں تقسیم کردیں گے تو یہ ایک باطل عمل ہے.
وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ[بقرہ: 278]
”جو سود باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔”
سود حاصل کرنا ہی حرام ہے, تو آگے تقسیم کرنا,یہ تو بعد کا معاملہ ہے.
لہذا ہر سرکاری ملازم پر لازم ہے کہ وہ اس حرام مال(رقم) سے خود کو پاک کرے. اس کا انکار کرنا یہ فرض ہے اور ابھی معلوم ہونے کے بعد ختم نہ کروانے والا بالکل حرام و کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ