سوال

میں ایک خاتون ہوں، میرے والدین فوت ہوچکے ہیں، میں شادی شدہ ہوں، اور میری تین بچیاں ہیں، ہم دونوں میاں بیوی لاہور میں ایک جگہ گروی کے مکان پر رہتے تھے۔ میں نے چار لاکھ روپیہ دے کر ایک سال کے لیے گروی پر مکان لیا تھا۔
میرے خاوند کچھ عرصہ قبل ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوں، میں کام نہیں کرسکتا، لہذا اگر آپ کام کرسکتی ہیں، تو کریں، میں گھر میں بچوں کو سنبھالوں گا، لیکن اگر آپ کام نہیں کرسکتی، تو میں بھی کام نہیں کرسکتا، میں واپس اپنے آبائی گھر والد کے پاس چلا جاتا ہوں، اور آپ خلع لینا چاہتی ہیں، تو لے لیں، ورنہ میں آپ کو طلاق بھجوا دوں گا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا گروی پر مکان لینا جائز ہے؟ کیونکہ ہمارا ایگریمنٹ ختم ہونے والا ہے، اور ہمیں رہنے کے لیے مزید مکان کی ضرورت ہے، بعض پراپرٹی ڈیلر یہ کہتے ہیں کہ گروی پر مکان لینا تو سود ہے، لیکن اگر آپ کرایہ کا معاہدہ کریں، اور اس میں جو رقم بطور گروی دینی ہے، وہی بطور ایڈوانس دیں، تو اس سے بھی آپ کو کرایہ میں کافی کمی کا امکان ہے، لہذا آپ کو یہ کام کرلینا چاہیے؟
میری رہنمائی کریں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں ایک گھریلو اور جاب لیس خاتون ہوں، اگر ویسے کرائے پر مکان لوں، تو بہت جلد میری جمع پونجی کرائے کی مد میں ختم ہوجائے گی۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کسی کو پیسے دے کر گروی پر مکان لینا صحیح ہے سفر میں بھی اور حضر میں بھی۔کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

“اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ”. [ البقرة:283]

’اگر تم سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے کے لیے کوئی نہیں ملتا تو کوئی چیز گروی رکھ کر اس سے قرضہ لے لو‘۔
اور حضر میں بھی یہ کام ہو سکتا ہےکیونکہ حدیث میں آتا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم ودرعه مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من شعير”. [صحيح البخاري:2916]

’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے میں رہن رکھی ہوئی تھی‘۔
رہا گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانے کا مسئلہ تو یہ اس وقت جائز ہے جب گروی شدہ چیز پر کوئی خرچہ آتا ہو، جیسا کہ بکری ،بھینس يا كوئی اور جانور ۔کیوں کہ ان پر لامحالہ خرچہ آتا ہے، لہذا اس کے بدلے میں ان جانوروں سے جو نفع حاصل ہو سکتا ہو، جائزہے، جیساکہ سواری کرنا، دودھ پینا وغیرہ۔
لیکن مکان ، زمین وغیرہ جمادات پر کوئی خرچہ نہیں آتا، لہذا ان جیسی چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں، بلکہ سود كے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ یہ قرضے کے بدلے میں فائدہ ہے اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ:

“كل قرض جر منفعة فهو ربا”. [السنن الصغرى للبيهقي:4/353، آثار المعلمي (18/ 453]

’ہر قرض جو نفع سے مشروط ہو، وہ سود ہے‘۔
لہذا قرض کے بدلے میں جو بھی فائدہ اٹھایا جائے خواہ وہ مکان کی شکل میں ہو، یا پیسے يا زمین کی کاشتکاری کی صورت میں ہو سود ہے ۔
اس لئے مکان گروی پر لے کر اس میں رہائش رکھنا جائز نہیں۔ہاں جو آپ نے قرضہ دیا ہے اس میں آپ مکان کا کرایہ طے کرلیں تو کرایہ کاٹ کر بقیہ رقم آپ کو دے دی جائے، تو پھر یہ جائز ہے، کیونکہ پھر آپ مکان سے فائدہ قرضے کے بدلے میں نہیں، بلکہ اس کے کرائے کے عوض میں اٹھار ہی ہوں گی۔ واللہ اعلم
یہ جو آپ نے کہا ہے کہ اگر میں کرایہ پررہوں تو میری جمع پونجی ختم ہو جائے گی، تو اس قسم کے عذر کی وجہ سے سود جائز نہیں ہوجائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جسے آپ اپنی جمع پونجی کی حفاظت کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں، اس سود کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“يَمۡحَقُ ‌ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰاْ”. [البقرة: 276]

’ اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے‘۔
یعنی سود کبھی مال کے بڑھنے اور برکت کا ذریعہ نہیں ہوسکتا، وقتی طور پر اضافہ نظر آتا ہے، لیکن در حقیقت انسان کا معاش اور معیشت دونوں تباہی پر لگ جاتے ہیں۔
لہذا جس طرح الله تعالی نے آپ کو دوسرے گھریلو اخراجات پورے کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے، رہائش اور اس کےکرائے کا بندوبست کی بھی اسی طرح توفیق مانگیں، اللہ تعالی آسانیاں پیدا فرمائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ