غم منانے کا حکم

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ.

”غم منانے کا حکم نہ تو اللہ تعالی نے دیا نہ رسول اللہ ﷺ نے دیا بلکہ اللہ تعالی نے کئی مقامات پر غم سے منع کیا ہے چاہے وہ دینی معاملے میں ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ فرمایا :

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ.

” نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو، اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔“ (آل عمران : 139)

نیز فرمایا :

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ.

”ان پر غم نہ کریں اور جو وہ تدبیریں کرتے ہیں اس سے کسی تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔“ (النحل : 127)

اسی طرح فرمایا :

إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.

”جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کریں، یقیناً اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہی تو ہے۔“ (التوبة : 40)

مزید فرمایا :

وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ.

”اور آپ کو ان کی بات غمگین نہ کرے۔“ (يونس : 65)

یہ فرمان بھی ہے :

لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ.

”تاکہ جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے تم اس پر غم نہ کرو اور جو تمھیں اللہ تعالی عطا کرے اس پر پھول نہ جاؤ۔“ (الحديد : 23)

اور اس جیسی دیگر کئی آیات بھی ہیں، پھر غم سے منع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ نہ تو اس سے کوئی نفع حاصل ہوتا ہے، نہ نقصان دور ہوتا ہے لہذا یہ بے فائدہ ہے اور جو چیز عبث و بے فائدہ ہو اللہ تعالی اس کا کبھی حکم نہیں دیتے، ہاں اگر کبھی انسان مصائب پر غمگین ہو جائے اور اس غم کے ساتھ کوئی حرام کام نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہو گا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”اللہ تعالی آنکھوں کے آنسوؤں اور دل کے غم پر مؤاخذہ نہیں کرتے البتہ اس زبان (سے نکلنے والے الفاظ) پر مؤاخذہ کرتے ہیں یا رحم والا معاملہ فرماتے ہیں۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”آنکھ روتی ہے اور دل غم زدہ ہے لیکن ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔“

اسی طرح اللہ تعالی نے یعقوب علیہ السلام کے متعلق فرمایا :G

وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ

”اور وہ ان سے واپس پھرے اور کہا ہائے یوسف پر میرا غم! اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں، اس وقت وہ غم سے بھرے ہوئے تھے۔“ (يوسف : 84)

پھر بسا اوقات غم کے ساتھ کوئی ایسی چیز مل جاتی ہے جس پر انسان کو ثواب ملتا ہے، اس صورت میں بھی وہ غم قابلِ تعریف شے نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ملنے والی اصل حقیقت قابلِ تعریف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک انسان اپنے دین میں مصیبت کی وجہ سے غمگین ہوتا ہے یا عمومی طور پر مسلمانوں کے مصائب پر غم زدہ ہو جاتا ہے تو ایسے شخص کو اس کے دل میں موجود بھلائی کی محبت اور شر کی نفرت پر ثواب ملتا ہے، لیکن اگر یہی غم بندے کو صبر و جہاد، جلب منافع اور دفعِ مضرات کے ترک کی طرف لے جائے کہ جن کا حکم دیا گیا ہے تو یہ صورت بھی ممنوع ہو گی۔“

📚 (مجموع الفتاوی : 10/ 16، 17)

✍️ ترجمانی : حافظ محمد طاهر حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ