گمنام سائنسدان: ناسا سے جنت کا سفر
فلسطینی بڑے عجیب لوگ ہیں۔ عجیب اس معنی میں کہ ان کے نزدیک وطن، عزت اور مزاحمت کا تقاضا ہر آسائش، ہر مفاد اور ہر نعمت سے بڑھ کر ہے۔ عسکری ٹیکنالوجی اور میزائل پروگرام کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ مزاحمت نے اسے کسی بیرونی ملک سے خفیہ معاونت کے ذریعے حاصل کیا۔ مگر یہ اس وقت ایک حیران کن حقیقت کے طور پر سامنے آیا کہ اس ٹیکنالوجی کا اصل معمار کوئی غیر ملکی نہیں، بلکہ ایک گم نام فلسطینی سائنس دان تھا، جو خلعتِ شہادت اوڑھ کر ارضِ انبیاء میں ابدی نیند سو گیا۔ وہ سائنس دان تھا: ڈاکٹر جمال الزبدہ۔
امریکی شہریت، ناسا کی ملازمت اور آسائشوں کو خیرباد:
ڈاکٹر جمال الزبدہ نے وہ سب کچھ قربان کیا جس کی خواہش دنیا کے لاکھوں سائنس دان کرتے ہیں۔ امریکی شہریت، پرسکون زندگی اور ناسا جیسے عظیم ادارے میں کام کا شاندار موقع۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک ایسا راستہ چُنا جس کا انجام شہادت، کھنڈر، بارود اور اسرائیلی ڈرونز کی نگرانی میں گزرتی زندگی تھا۔
جمال الزبدہ 1956 میں غزہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اصل میں یافا سے تعلق رکھتا تھا، جہاں سے انہیں 1948 میں ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ وہ بچپن ہی سے اخلاق، ذہانت اور تحقیق میں نمایاں رہے۔ ابتدائی تعلیم غزہ میں مکمل کرکے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے۔ جہاں ورجینیا پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ سے 1981 میں سول انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں اسی جامعہ سے انہوں نے انجینئرنگ سائنسز اور مکینکس میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ امریکا میں دورانِ تعلیم ہی ان کا نام عالمی سائنسی جرائد تک پہنچ گیا اور انہیں کئی اہم پیٹنٹس بھی حاصل ہوئے۔ ڈاکٹر الزبدہ ہوا بازی کے شعبے میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے طیاروں کے انجنوں کے بارے میں کئی تحقیقی مقالے لکھے۔ خصوصاً ڈیلٹا ونگز (Delta Wings) پر حرکت اور صوتی رفتار کے اثرات سے متعلق ان کا نیا تحلیلی ماڈل عالمی سائنسی مجلات میں شائع ہوا۔ وہ سیال میکانیکیات، ہائیڈرولک سسٹمز، کمپیوٹیشنل فلوڈ ڈائنامکس، ایروناٹکس، اسٹرکچرل انجینئرنگ اور سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ جیسے کئی علمی میدانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر زبدہ نے مختلف اداروں میں تحقیقی خدمات انجام دیں۔ 1987 سے 1989 تک امریکہ میں ناسا کے ایک تحقیقی پروگرام میں شامل رہے۔ 1991 میں ورجینیا ٹیک میں انجینئرنگ و میکینکس کے محقق رہے اور پھر امارات کی ایک یونیورسٹی میں تدریس اور نصاب کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔
ناسا سے غزہ تک، منزلوں کا عجیب سفر:
امریکی خلائی ادارے ناسا میں کام کرنے اور امریکی یونیورسٹیوں میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے باوجود وہ ہمیشہ بے چین رہے۔ 1994 میں انہوں نے ایک عجیب فیصلہ کیا، جسے شاید لوگ بے وقوفی بلکہ پاگل پن کا نتیجہ قرار دیں۔ انہوں نے اپنے اور بچوں کے روشن مستقبل، بہترین سہولتوں اور ترقی یافتہ دنیا، غرض سب کچھ چھوڑ کر غزہ واپسی کو ترجیح دی کہ وہ واپس اپنے وطن جائیں گے، اس جگہ جہاں بمباری ہو رہی تھی، محاصرہ تھا، غربت تھی، مگر دل کے سکون اور ایمان کا تقاضا بھی وہیں تھا۔
ان کے ایک شاگرد سعد الوحیدی نے ایک بار ہنستے ہوئے پوچھا:
“عمو ابو اسامہ! کوئی امریکہ چھوڑ کر واپس غزہ بھی آتا ہے؟”
ڈاکٹر الزبدہ نے بڑے سکون سے جواب دیا:
“بیٹا، یہ سرزمین ایک امانت ہے، ایک مسئلہ ہے… جس کے پاس اپنی قوم کی پہچان اور اپنی جدوجہد کا احساس ہو، اسے نہ امریکہ روک سکتا ہے اور نہ ہزار امریکہ۔”
غزہ آ کر انہوں نے اسلامی یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کا شعبہ قائم کیا اور اس کے سربراہ بنے۔ وہ 1994 سے 2001 تک سول انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی رہے۔ یونیورسٹی میں انہوں نے سائنسی تحقیق، فنی تعلیم اور مختلف تربیتی منصوبوں کی نگرانی کی۔ نقابتی میدان میں بھی سرگرم رہے اور تین سال تک انجینئرز یونین غزہ کے خزانچی رہے۔ پھر وہ اس یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔ لیکن دستِ قدرت نے ان سے کوئی اور کام لینا تھا، ایک ایسا کام جس نے پورے خطے کے عسکری توازن کو بدل کر رکھ دیا۔
مزاحمت کے خفیہ انجینئر:
نوّے کی دہائی میں ڈاکٹر جمال الزبدہ عبد العزیز رنتیسی کی دعوت پر مزاحمت کی صفوں میں شامل ہوئے اور بعدازاں ق،،ام بریگیڈ کے فعال رکن بنے۔ 2006 سے وہ تحریک کی عسکری صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مصروف رہے۔ ان دنوں ق،،ام کے راکٹ محض 30 کلومیٹر تک پہنچتے تھے، ان کی محنت سے 2009 میں یہ حد 35 کلومیٹر تک بڑھی اور پھر 2021 تک وہ پورے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کو نشانہ بنانے کے قابل ہو گئے۔ ڈاکٹر جمال محمد الضیف کی نگرانی میں اسلحہ ساز ادارے دائرۂ التصنیع العسکری میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی سربراہی میں مقامی انجینئروں اور ماہرین پر مشتمل خفیہ ٹیم ایسے جدید آلات اور ہتھیار بناتی تھی جن کے پیچھے انتہائی محدود وسائل اور غیر معمولی ذہانت ہوتی تھی۔ ان کی زیرنگرانی تیار ہونے والے عسکری اوزار میں شامل تھے: ق،،ام راکٹ، بغیر پائلٹ طیارے (ڈرونز)، بارودی سرنگیں، دھماکہ خیز آلات، بھاری رائفلیں اور اسنائپنگ گن، مختلف ساخت کے بم، بحری ہتھیار اور فضائی دفاعی نظام کے بنیادی نمونے۔
ڈاکٹر جمال نے نہ صرف درجنوں انجینئر تیار کیے بلکہ خفیہ طور پر سیکڑوں اہل علم نوجوانوں کو اس پروگرام میں شامل کیا، جو بعد بھی مزاحمت کی ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے لگے۔ انہیں محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی خفیہ اداروں دونوں کی جانب سے اذیتوں اور پیچھا کرنے کا سامنا رہا۔ 2004 میں انہیں فلسطینی اتھارٹی نے گرفتار بھی کیا۔ ہر بار جب اسرائیلی حملہ ہوتا تو انہیں اپنے بچوں سمیت بار بار گھر چھوڑ کر محفوظ مقام تلاش کرنا پڑتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ کھلے نشانے پر آ چکے تھے۔
2006 میں، ڈاکٹر جمال اور ان کے بیٹے اسامہ ایک خفیہ انجینئرنگ یونٹ کا حصہ بن گئے۔ یہی یونٹ بعد میں مزاحمت کی عسکری ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جمال نے یہ عظیم اور خطرناک ذمہ داری اپنی زندگی کے ہر قریبی شخص سے پوشیدہ رکھی۔ صرف ایک شخصیت اس راز سے واقف تھی، ان کی اہلیہ امِ اسامہ۔
ام اسامہ بتاتی ہیں کہ جب جمال نے اس خفیہ عسکری راستے پر قدم رکھنے کے لیے ان سے مشورہ لیا، تو انہوں نے ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا: “چلیں بے فکر ہوکر… یہ عزیمت کا راستہ ہے۔”
مزاحمت ٹیکنالوجی کی نئی زندگی:
ڈاکٹر جمال نے نوجوان انجینئروں کی ایک نسل تیار کی، انہیں جدید عسکری سائنس کی تربیت دی اور میزائل پروگرام کو ایک نئی جہت عطا کی۔ 2012 میں “حجارۃ السجیل” جنگ میں مزاحمت نے 1500 میزائل داغے، جن میں سے کئی تل ابیب اور یروشلم تک پہنچے۔ 2014 کی “عصف المأکول” جنگ میں مزاحمتی ڈرون اسرائیلی حدود میں 30 کلومیٹر تک داخل ہوئے اور اسرائیلی دفاعی نظام انہیں بروقت نہ پکڑ سکا۔ یہ سب ڈاکٹر جمال کی کاریگری کا نتیجہ تھا۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ 250 کلومیٹر رینج کے میزائل کی ایجاد تھا۔ یہ خواب ’’صاروخ عیاش 250‘‘ کی شکل میں حقیقت بنا، جو 2021 کی ’’سيف القدس‘‘ جنگ میں پہلی بار استعمال ہوا اور اسرائیل کی عسکری سوچ کو جھنجھوڑ گیا۔
اسرائیل کا مطلوب ترین سائنس دان:
2012 میں اسرائیل نے انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر وہ بچ نکلے۔ اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ مزاحمت کے میزائل پروگرام کا اصل معمار کون ہے۔ ان کی شخصیت، ان کا کردار، ان کی صلاحیت، سب کچھ صہیونیت کی آنکھوں سے پوشیدہ تھا۔ یہ راز ان کی شہادت کے بعد دنیا پر کھلا کہ غزہ کے صندوقِ خفیہ کا سب سے قیمتی ہیرا کون تھا۔
شہادت، ایک ایسی خواہش جو لبوں پر تھی:
ان کے بیٹے عبد العزیز بتاتے ہیں کہ رمضان 2021 میں وہ اکثر دعا کرتے: “یا اللہ… مجھے شہادت دے دے۔ القدس اس لائق ہے کہ اس کے لیے جان دی جائے۔”
ان کی ایک وائرل ویڈیو میں وہ اپنے بیٹے اسامہ سے کہتے نظر آتے ہیں: “اللہ کرے تم سو سال جیو اور یہ سو سال جہاد میں گزریں، یہود کے سروں کو کچلتے ہوئے۔”
عظیم خاتون کی گواہی:
جب الجزیرہ کی ٹیم تعزیت کے لیے ان کے گھر پہنچی تو ام اسامہ نے مسکراتے ہوئے کہا:
“تعزیت نہیں… مبارکباد دو۔ اللہ نے میرے شوہر اور بیٹے کو شہادت کی خلعت پہنائی ہے۔”
وہ بار بار کہتی تھیں:
“اگر دشمن سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر جمال ختم ہو گئے… تو ان کے پیچھے ہزار جمال موجود ہیں۔”
اسرائیل کا قیمتی شکار:
12 مئی 2021 کو ’’سيف القدس‘‘ جنگ کے دوسرے دن اسرائیلی فضائی حملے میں ڈاکٹر جمال، ان کے بیٹے اسامہ اور مزاحمت کے کئی اہم انجینئر شہید ہوئے۔ اسرائیلی میڈیا نے انہیں ’’قیمتی شکار‘‘ کہا، مگر فلسطینیوں کے نزدیک وہ ایک مردِ مجاہد تھے۔ ان کی تمام عسکری خدمات، ان کا کردار، ان کی تکنیکی عظمت، سب کچھ ان کی شہادت کے بعد پہلی بار سامنے آیا۔ دنیا کو معلوم ہوا کہ مزاحمت کے میزائل پروگرام کا اصل معمار ایک ایسا شخص تھا جس نے ناسا جیسے ادارے کی ملازمت، امریکا کی آسائشوں بھری شہریت اور زندگی چھوڑ کر دنیا کے سب سے زیادہ بمباری والے علاقے میں مزاحمت کی بنیادیں مضبوط کیں۔
ان کی بیٹی سجى الزبدہ کا کہنا ہے کہ “بابا بہت خاموش اور بہت رازدار تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا: جب میں شہید ہو جاؤں گا… تب تمہیں پتا چلے گا کہ تمہارے والد نے اپنی قوم کے لیے کیا کیا تھا۔”
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(ضیاء چترالی)




