ایک دوست نے پوچھا کہ آپ گنبدِ خضراء کی تاریخ سے متعلق کچھ بتائیے کہ یہ کب وجود میں آیا اور کن مراحل سے گزرنے کے بعد موجودہ شکل تک پہنچا ہے؟

سردست اتنا عرض ہے کہ آج جس عمارت کو ہم گنبدِ خضراء کے نام سے جانتے ہیں، بہت سے لوگ اس کے بارے میں یہ جان کر حیرت زدہ رہ جائینگے کہ اس گنبد خضراء کا پورے ساڑھے چھ سو سال تک قبر نبویﷺ پر کوئی وجود ہی نہ تھا۔ نہ یہ گنبد خضراء صحابہؓ کے دور میں موجود تھا، نہ تابعین کے دور میں اور نہ ہی محدثین و فقہاء کے دور میں۔

علامہ علی حافظ اپنی کتاب فصول من تاریخ المدینۃ المنورۃ میں بتاتے ہیں کہ ابتداً سیدہ عائشہؓ کے حجرہ پر کوئی گنبد نہیں تھا اور حجرہ مبارکہ کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے سطح مسجد سے آدھے قد کی مقدار تک ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی۔ سلطان قلاوون الصالحی وہ پہلا شخص ہے جس نے حجرہ عائشہؓ پر 678 ہجری بمطابق 1279ء میں گنبد بنایا جو نیچے سے چکور تھا اور اوپر سے آٹھ حصوں میں تھا جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ پھر سلطان قلاوون کے بیٹے ناصر حسن بن قلاوون کے زمانے میں اس گنبد کی مزید تجدید ہوئی۔ بعدازاں سن 765 ہجری میں شعبان بن حسین بن محمد قلاوون کے عہدِ حکومت میں اس گنبد میں کچھ خرابی آگئی جس کی اصلاح تقریباً سوا سو سال بعد یعنی 881 ہجری میں سلطان قایتبائی کے دور میں کی گئی۔ تین سال بعد یعنی 884 ہجری میں مسجد نبویﷺ میں آگ لگ جانے سے یہ گنبد جل گیا۔ لیکن پھر 2 سال بعدیعنی 886 ہجری میں سلطان قایتبائی کے دور میں ہی اس کو دوبارہ بنایا گیا۔ ابتداً یہ گنبد خشبی یعنی لکڑی کے رنگ کا تھا۔ سن 892 ہجری میں اس پر سفید رنگ کرکے اسکو گنبد بیضاء یعنی سفید گنبد بنادیا گیا۔ تقریباً 400 سال بعد یعنی 1353 ہجری میں ترکی کی عثمانی خلافت کے زمانے میں اس گنبد پر سلطان عبدالحمید عثمانی کے حکم سے ہرا رنگ کردیا گیا اور یوں یہ گنبد خضراء کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ایک زمانے میں اس پر نیلا رنگ بھی کیا گیا تھا اور عرصہ تک یہ گنبد زرقاء کہا جاتا رہا تھا ۔

نوٹ: چونکہ گنبد کو عربی میں قبة کا کہا جاتا ہے جو کہ مونث کا صیغہ ہے پس اس کے ساتھ اخضر کی مونث یعنی خَضراء استعمال ہوتا ہے اور اسکو القبة الخَضراء کہا جاتا ہے: خ کے زبر کے ساتھ۔ تاہم اردو میں یہ لفظ خِضراء یعنی خ کی زیر کے ساتھ غلط العام مستعمل ہوچکا ہے۔ گویا عربی کا خَضراء اردو میں آکر خِضراء بن چکا ہے پس اسی سبب ہم نے اپنی اس ویڈیو میں اردو داں ناظرین و سامعین کی مناسبت سے اس لفظ کو خِضراء ہی بولا ہے تاکہ سننے والوں کو اجنبیت محسوس نہ ہو۔ “ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے والے الفاظ کے تلفظ و ہجوں میں اس طرح کی تبدیلیوں کے لئے درست منھج کیا ہے” اس سلسلے میں محترم ماہر القادری صاحب کا مذکورہ مسئلے پر رقم کردہ مضمون مطالعہ فرمائیں۔

فہد حارث