“گستاخانِ صحابہ کا عبرتناک انجام”

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ برگزیدہ، مقدس اور پاکباز ہستیاں ہیں، جنہیں خالقِ کائنات نے اپنے محبوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت کے لیے چن لیا۔ یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں، جن کی تعریف و توصیف خود ربِ ذوالجلال نے اپنے کلامِ مقدس میں کی، اور جن کی مدح و عظمت کے پھول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بابرکت فرامین میں کھلائے، ان سے محبت صرف جذبات کا تقاضا نہیں، بلکہ ایمان کی علامت، اور ان سے بغض و دشمنی نفاق کی نشانی ہے۔
ہر اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ وہ ان روشن ستاروں سے محبت کرے، ان کے نقشِ قدم پر چلے، اور ان کی عزت و حرمت کو دل و جان سے تسلیم کرے۔ افسوس! کچھ بدنصیب ایسے بھی گزرے اور آج بھی موجود ہیں جو ان مقدس ہستیوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، ان کے مقام و مرتبے کو گھٹانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے ان محبوب بندوں کے گستاخوں کو نہ صرف آخرت میں رسوا کرنے کا وعدہ فرمایا بلکہ دنیا ہی میں ان کا عبرتناک انجام کر کے انہیں لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔
ذلت، رسوائی، تذلیل، بے وقعتی اور انجامِ بد اُن سب کا مقدر ٹھہرا جو ان بلند مرتبہ ہستیوں کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے۔ ان کی داستانیں صفحاتِ تاریخ میں عبرت کا نشان بن کر محفوظ ہیں۔ آئیے! ہم ان واقعات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تاکہ دلوں میں صحابہ کرام کی عظمت راسخ ہو، اور ہم ان کی حرمت و عظمت کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔

(١) سعد بن ابی وقاص کے گستاخ کا انجام:
سیدنا جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ:

“شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا أُصَلِّي صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الْكُوفَةِ فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَعْدٌ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهُ وَأَطِلْ فَقْرَهُ وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ:‏‏‏‏ فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ”(١)

«اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چناچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قرآت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر ؓ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد ؓ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد ؓ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آگئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا»

(٢) سیدنا سعید بن زید کی گستاخ عورت کا انجام:
سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

“أَنَّ أَرْوَی خَاصَمَتْهُ فِي بَعْضِ دَارِهِ فَقَالَ دَعُوهَا وَإِيَّاهَا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ طُوِّقَهُ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اللَّهُمَّ إِنْ کَانَتْ کَاذِبَةً فَأَعْمِ بَصَرَهَا وَاجْعَلْ قَبْرَهَا فِي دَارِهَا قَالَ فَرَأَيْتُهَا عَمْيَائَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَی بِئْرٍ فِي الدَّارِ فَوَقَعَتْ فِيهَا فَکَانَتْ قَبْرَهَا”(٢)

«ارویٰ نے ان سے گھر کے بعض حصہ کے بارے میں جھگڑا کیا تو انہوں نے کہا کہ اسے چھوڑ دو اور زمین اسے دے دو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے حق کے بغیر ایک بالشت بھی زمین لی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق ڈالیں گے اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اسے اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کے گھر میں بنا راوی کہتے ہیں کہ میں نے اسے اندھا اور دیواروں کو ٹٹولتے دیکھا اور کہتی تھی مجھے سعید بن زید کی بد دعا پہنچی ہے اس دوران کہ وہ گھر میں چل رہی تھی گھر میں کنوئیں کے پاس سے گزری تو اس میں گر پڑی اور وہی اس کی قبر بن گئی»

(٣) عبید اللہ بن زیاد کا انجام:
عبید اللہ بن زیاد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا، اللہ تعالیٰ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔
عمارہ بن عمیر فرماتے ہیں کہ:

“لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ،‏‏‏‏ وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ،‏‏‏‏ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ:‏‏‏‏ قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ،‏‏‏‏ فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً،‏‏‏‏ ثُمَّ خَرَجَتْ،‏‏‏‏ فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالُوا:‏‏‏‏ قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا” (٣)

«جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا”
ملاحظہ: حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کے مناقب میں اس حدیث کو لا کر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں، جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک، آنکھ اور منہ پر مارا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

(٤) امام اعمش فرماتے ہیں کہ:

«خَرِئَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ عَلَى قَبْرِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ». قَالَ: «فَأَصَابَ أَهْلَ ذَلِكَ الْبَيْتِ خَبْلٌ وجُنُونٌ وَجُذَامٌ وَمَرَضٌ وفَقْرٌ»(٤)

« بنو اسد کے ایک آدمی نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی قبر پر بول براز کیا تو اس کے گھر والے فتور عقل، جنون، کوڑہ، اور فقر کا شکار ہو گئے»

(٥) “صحابہ کرام کا گستاخ ملعون ہے”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ”(٥)

«جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو»
(٦) “صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی گستاخی کرنا حرام ہے”
امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ (متوفی ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں:

“من يبغض أصحاب رسول الله ﷺ فليس له في الفيء نصيب”

«جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بغض رکھتا ہے تو فیء ( مالِ غنیمت ) میں سے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے» پھر آپ نے سورۃ الحشر کی تین آیات (۸ تا ۱۰) تلاوت کیں اور فرمایا:

“فمن يبغضهم فلا حق له في في المسلمين”

لہذا جو شخص ان (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے بغض رکھتا ہے تو مسلمانوں کے مال غنیمت میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ (٦)
فیء اس مال غنیمت کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو بغیر جنگ کے حاصل ہو جائے۔
صحابه کرام رضی اللہ عنھم کی گستاخی کرنے والے لوگ اتنے بڑے گمراہ ہیں کہ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے مشہور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے(٧)
(٧) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام:
قاضی ابو الطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے (محدث) نے اس مسئلے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان بولا: ” أبو هريرة غير مقبول الحديث، ابو ہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے۔ قاضی ابوالطیب نے فرمایا: اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا، بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا. (٨)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) : (صحيح البخاري : ٧٥٥)
(٢) : (صحيح مسلم : ١٦١٠)
(٣) : (سنن الترمذي: ٣٧٨٠ ، صحيح الاسناد)
(٤) : (المعجم الکبیر للطبرانی : ٣/١٢٠ ، ٢٨٦٠)
(٥) : (سلسلة الصحيحة رقم : ٢٣٤٠ ، المعجم الكبير للطبراني رقم : ١٢٥٤١)
(٦) : ( الطیوریات ج : ا ص : ٨٩٫٩٠ ح : ٦٩ و سندہ صیح ، حلیۃ الاولیا ٦ /۳۲۷ ، نیز دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ج ٦ ص : ۳۷۲ و سندہ صحیح)
(٧) : (تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات ج : ٢ ص : ٥٤٥)
(٨) : (المنتظم لابن الجوزی : ١٧/ ١٠٦ و سند صحیح)

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: شیخ الاسلام ابن المنذر رحمہ اللہ