سوال (4475)

ایک شخص نے کسی مالک کو چالیس لاکھ روپے دیے ، اور اس کے بدلے میں وہ مالک اپنی دو دکانیں دو سال کے لیے اس شخص کو دے دیتا ہے، ان دو سالوں میں دکانوں کا کرایہ اس شخص کو ملتا رہے گا، جب دو سال مکمل ہو جائیں گے، تو دکانیں مالک کو واپس مل جائیں گی اور وہ چالیس لاکھ روپے بھی واپس کر دے گا، اب سوال یہ ہے کہ یہ جو کرایہ ان دو سالوں میں اس شخص کو ملا، کیا وہ حلال ہے یا حرام؟

جواب

وہ دکانوں کا کرایہ مالک کو جائے گا، اس لیے کہ گروی میں کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، گروی ایک امانت ہوتی ہے، وہ اس صورت میں کہ سامنے والے پر اعتماد نہیں ہوتا ہے، پھر کوئی چیز بطور امانت رکھوائی جاتی ہے، اس چیز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اگر کسی نے فائدہ اٹھالیا تو وہ فائدہ مالک کو جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

مالک کا حق ہے، امانت جیسی تھی ویسی واپس کرے، اس کا قرض بھی ادا ہو رہا ہے، گروی کا یہی اصول ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

قرض دے کر نفع لینا، خواہ کسی بھی نام سے ہو، مثلاً کرایہ، ہدیہ یا سروس چارجز، سب سود کے ذیل میں آتا ہے، اور شریعت میں حرام ہے۔”

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ” (سورۃ آل عمران: 130)

اے ایمان والو! سود کو دوگنا چوگنا کر کے نہ کھاؤ۔

“كل قرض جر نفعًا فهو ربا.”

“ہر وہ قرض جو نفع لائے، وہ سود ہے۔”
یہ معاملہ سود کی ایک خفیہ شکل ہے۔کیونکہ اصل رقم (40 لاکھ) واپس لی جا رہی ہے۔ اور اس کے بدلے نفع (کرایہ) بھی وصول کیا گیا۔ گویا یہ “قرض پر مشروط نفع” ہے۔ “قرض پر مشروط منافع کا حصول” = “ربا (سود)” اور ربا کتاب و سنت کی رو سے حرام قطعی ہے۔
شرعی متبادل: اگر دکان واقعی کرائے پر لی جائے، مدت اور کرایہ متعین ہو، تو یہ جائز اجارہ ہو سکتا ہے۔ لیکن 40 لاکھ کی رقم قرض نہ ہو بلکہ ایڈوانس کرایہ ہو۔ یا پھر اگر دکان سے حاصل ہونے والے نفع میں مالک و سرمایہ کار حصے دار ہوں تو شرعی مضاربت یا مشارکت ہو سکتی ہے۔
میری رائے کے مطابق تو حاصل شدہ کرایہ حرام نفع ہے، اور اس پر توبہ لازم ہے۔ اگر مالک کی اجازت کے بغیر کرایہ لیا گیا ہے تو واپس کرنا یا صدقہ کر دینا واجب ہوگا۔ باقی کبار مشائخ سے دریافت کر لیں

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

سائل: یہ کرایہ لینا مالک کے لیے جائز ہے ؟ جبکہ چالیس لاکھ گروی رکھا تو ہوا ہے۔
جواب: جانور ہو تو اس کے خرچ کا بدلہ لے سکتا ہے۔
البتہ جس پر خرچ نہیں اس سے فائدہ بھی نہیں۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل: دوکانیں استعمال ہورہی ہیں اور پرانی بھی ہوں گئی ہیں۔
جواب: اصل مالک کی ہوں گی، اسی لیے فائدہ بھی وہی لے گا، بغیر اجازت امانت استعمال کرنا جائز نہیں۔
واللہ اعلم

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل: اگر وہ اجازت دے کہ تم استعمال کرلو اور بدلے میں ہر ماہ کرایہ دیتے چلے جانا تو؟
جواب: مشائخ نے تفصیلی و مختصر جوابات دیئے ہیں۔
آپکی تشفی کہاں نہیں ہو رہی وہ نکتہ بیان کریں۔
یہ بیان کچھ بدل گیا ہے، یعنی گروی جس کے پاس ہے وہ استعمال کرنے کا کرایہ مالک کو دے گا، پھر شرعی احکامات کی وضاحت اگر مگر پر نہیں رکھنی چاہیے، جو مسئلہ واقع ہوا ہے اسے ذکر کریں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ