سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک میت کا جنازہ باقاعدہ طور پر پڑھ دیا گیا تھا، لیکن دوبارہ پھر ایک دو افراد کے آنے کی وجہ سے اسی میت کا غائبانہ نماز جنازہ اگلے ہفتہ پھر نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ادا کیا گیا؟

کیا اس طرح غائبانہ نماز جنازہ پڑھانا درست ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کے جو دلائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں، ان میں سے ایک بڑی واضح اور مضبوط دلیل نجاشی رحمہ اللہ کے انتقال کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کے ساتھ ان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنا ہے۔ چنانچہ جب اصحمہ نجاشی کی وفات ہوئی، تو اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی وفات کی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ جنازگاہ گئے:

“فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ”. [صحیح البخاری: 1333، صحیح مسلم: 951]

’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز جنازہ کے لیے صف بندی کرائی اور چار تکبیریں کہیں‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان دور دراز علاقے میں وفات پا جائے، تو دوسری جگہ یا شہر میں اس کا غائبانہ نمازِجنازہ ادا کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر کچھ لوگ کسی میت کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے ہوں، اور انکے لیے بعد میں اسکی قبر پر جانا ممکن ہو، تو انہیں چاہیے کہ وہ قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کریں، جیسا کہ صحیح احادیث میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت کی قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائی، حالانکہ اس کا جنازہ پہلے ادا کیا جا چکا تھا۔ [صحیح البخاری: 458]

اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے، کہ اگر کوئی شخص میت کے حاضرانہ جنازے میں شریک ہو چکا ہو، تو وہ دوبارہ بھی اس پر نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھی، حالانکہ ان میں سے اکثر صحابہ پہلے جنازے میں شریک ہو چکے تھے۔

ہر عام آدمی کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا اور اسکو رواج دینا صحیح نہیں ہے، غائبانہ نمازِ جنازہ صرف ایسے شخص کی پڑھنا ثابت اور سنت ہے، جس کی دینی،مذہبی،قومی، سیاسی یا سماجی خدمات ہوں، جیسے حضرت نجاشی رحمہ اللہ کوئی عام آدمی نہیں  تھے، حاکم وقت تھے، اور انکی اسلام اور مسلمانوں کے لیے کئی ایک خدمات بھی تھیں، اس لیےہر کَس و ناکَس کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا درست اور ثابت نہیں ہے۔

لہٰذا اگر کہیں دور دراز علاقے میں کوئی اہم قومی یا مذہبی شخصیت فوت ہوجائے، تو اسکا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز و ثابت ہے، لیکن اگر اسی شہر میں غائبانہ نمازِجنازہ پڑھا جارہا ہے، جہاں میت کی تدفین ہوئی ہے، تو یہ سنت سے ثابت نہیں ہے، اس صورت میں اس کی قبر پر جاکر جنازہ پڑھنا مسنون ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ