حدیث جبریل سے مستنبط طلب علم کے آداب

1 *إذ طلع علينا رجل*

اس میں طلبِ علم کے لیے ترکِ وطن اور سفر کی حوصلہ افزائی ہے۔

2 *ولا يعرفه منا أحد*

عبد المحسن الزامل حفظه الله کہتے ہیں:

وفيه شدة تآلف الصحابة، ومتين أخوتهم في الله، من جهة استنكار صفة من طلع عليهم، وأنهم لا يعرفونه، فدل على معرفة بعضهم لبعض.

اس میں صحابہ کی آپسی شدّتِ الفت اور اللہ کے لیے قوی اخوت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ نئے آنے والے کی عدم معرفت کو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی خوب خیر خبر رکھتے تھے۔
[الآلاء الربانية شرح الأربعين النووية: ٤٥]

3 *شديد بياض الثياب*

أبو العباس القرطبي رحمه الله تعالى(ت:٦٥٦ھ) لکھتے ہیں:

وفيه دليلٌ على استحبابِ تحسينِ الثيابِ والهيئة والنظافةِ عند الدخولِ على العلماءِ والفُضَلاءِ والملوك؛ فإنّ جبريل عليه السلام أتى معلِّمًا للناس بحالِهِ ومقاله.

اس میں علماء و فضلاء اور بادشاہوں کے پاس آتے ہوئے حُسنِ لباس و ہیئت اور نظافت کے استحباب کی طرف اشارہ ہے کہ جبریل علیہ السلام اپنی ہیئت اور اپنی باتوں سے ایک سکھانے والے کی حیثیت سے آئے تھے۔
[المفهم: ١/١٣٧]
سليمان بن عبد القوي الطوفي رحمه الله تعالى(ت:٧١٢ھ) کہتے ہیں:

وفيه أيضًا استحباب التجمل وتحسين الهيئة للعالم والمتعلم لأن هذا الرجل هو جبريل – عليه السلام – كما بين في آخر الحديث وهو معلم من جهة لقوله : «جاء يعلمكم دينكم» ومتعلم من جهة أنه في سورة سائل.

اسی طرح اس میں عالم ومتعلم دونوں کے لباس و ہیئت میں تحسین و تجمّل کا بھی استحباب ہے کہ حدیث کے آخر میں “جاء یعلمکم دینکم” میں اشارہ ہے کہ وہ معلم کے طور پر آئے تھے جبکہ سائل کی حیثیت میں متعلم بن آئے تھے۔
[التعيين : ٤٩]
محمد بن عبد الهادي التتوي رحمه الله تعالى(ت: ١١٣٨ھ) فرماتے ہیں:

فانها أطهر وأطيب لأنه يلوح فيها أدنى وسخ فيزال بخلاف سائر الألوان.

(سفید لباس کی بھی حوصلہ افزائی ہے) کیونکہ یہ زیادہ پاکیزہ، اور ستھرا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ باقی رنگوں کے مقابلے میں اس پر لگنے والا ہلکا سا داغ بھی ظاہر ہوجانے کی بنا پر اسے فورا صاف کردیا جاتا ہے۔
[حاشية السندي على سنن النسائي: ٢٠٥/٨]

4 *جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم*

طالب علم شیخ کے قریب بیٹھے اور متأدب ہوکر بیٹھے۔ اور استاد کے سامنے بیٹھنے کی کوشش کرے نا کہ کسی ایک جانب۔

5 *ووضع كفيه على فخذيه*

– ابن حجر العسقلاني رحمه الله تعالى(ت:٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:

وفيه إشارة لما ينبغي للمسؤول من التواضع، والصفح عما يبدو من جفاء السائل، والظاهر أنه أراد بذلك المبالغة في تعمية أمره؛ ليقوي الظن بأنه من جفاة الأعراب؛ لأن الصحابة استغربوا هيئته.

اس میں مسؤول کے تواضع کی طرف اشارہ ہے کہ سائل کی جانب سے اگر کچھ اونچ نیچ ہو بھی تو برداشت کر جائے۔ ظاہرا تو (جبريل علیہ السلام کے) اس عمل میں آپ کی (سوال اور فائدے کے) عموم کی کوشش نظر آتی ہے کہ آپ ایک اعرابی کی ہیئت میں آئے تھے۔ اسی وجہ سے تو صحابہ کو آپ کی ہیئت عجیب لگی۔
[النكت على صحيح البخاري: ٨/٢]
أبو العباس القرطبي رحمه الله تعالى(ت:٦٥٦ھ) کہتے ہیں:

فوضع كفيه على فخذيه، وهو محتمل، وإنما فعل جبريل ذلك -والله اعلم-؛ تنبيها على ما ينبغي للسائل من قوة النفس عند السؤال، وعدم المبالاة بما يقطع عليه خاطره، وإن كان المسؤول ممن يحترم ويهاب، وعلى ما ينبغي للمسؤول من التواضع والصفح عن السائل، وإن تعدى على ما ينبغي من الاحترام والأدب.

ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا، اس میں گو کہ احتمال ہے، مگر -واللہ اعلم- جبریل علیہ السلام نے اس لیے ایسا کیا کہ سائل (کے لیے مطلوب) قوت نفس اور توجہ کا اظہار ہو۔ اور دوسری سوچوں اور فکروں سے خلاصی ظاہر ہو۔ چاہے مسؤول بہت محترم اور ہیبت والا ہی ہو(مگر اصل توجہ سوال پر مرکوز رہے)۔ اسی طرح اس میں مسؤول کی تواضع بھی ہے کہ سائل کی جانب سے کسی اونچ نیچ کو سہ لے۔ چاہے وہ احترام اور ادب کے تقاضے کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔
[المفهم: ١٣٩/١]

6 *شديد سواد الشعر*

– اس میں یہ اشارہ ہے کہ طلب علم کا سب سے بہتر وقت جوانی ہے۔

7 *أخبرني عن الإسلام/الإيمان/الإحسان/الساعة/ أتاكم يعلمكم دينكم*

ابن هبيرة رحمه الله تعالى(ت:٥٩٠ھ) رقمطراز ہیں:

وفيه أيضا أن من توفيق السائل إذا سأل في ملأ أن يسأل عن مسألة تعمه وتعم الحاضرين، كما سأل جبريل.

اس میں سائل کے لیے ادب ہے کہ اگر مجلس میں سوال پوچھ رہا ہے تو ایسا سوال کرے جو سب کے فائدے کا باعث بنے۔ جیسا کہ جبريل علیہ السلام نے پوچھا۔
[الإفصاح: ١٩٩/١]
ابن هبيرة رحمه الله تعالى(ت:٥٩٠ھ) فرماتے ہیں:

وفي هذا ايضا من الفقه أن من طرق التعليم أن يسأل العالم من مسألة وهو يعرفها ليجاب عنها بمعهد غيره فيتعلم تلك المسألة من لم يعلمها.

اس میں یہ بھی ہے کہ علم کے باوجود بھی عالم سے سوال کر لیا جائے کہ شیخ کے جواب دینے سے دوسرے حاضرین جنہیں اس مسئلہ کا علم نا ہو، جان جائیں۔
[الافصاح: ٢٠٠/١]
عبد المحسن الزامل حفظه الله کہتے ہیں:

وفي هذا الخبر أيضا: السؤال والجواب، هو أبلغ في ثبوت الفائدة.

اس میں اس بات کی خبر بھی ہے کہ سوال جواب کا اسلوب (سامعین تک) فائدہ پہنچانے میں زیادہ مفید ہے۔
[الآلاء الربانية شرح الأربعين النووية: ٤٥]

8 *ما المسؤول عنها بأعلم من السائل/ الله و رسوله أعلم*

ابن هبيرة رحمه الله تعالى(ت:٥٩٠ھ) کہتے ہیں:

وفيه أيضًا جواز أن يسأل الإنسان العالم عما يعلم أنه لا يعلمه ليرد عليه جوابا يسكت الناس عن التعرض للسؤال عن ذلك.

اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالم سے وہ بات بھی پوچھی جا سکتی ہے جسکا اندازہ ہو کہ اسے عالم نہیں جانتا (اس نیت سے ) کہ لوگ اس میں تعرض کرنے سے باز آجائیں۔
[الإفصاح: ٢٠٠/١]
ابن الملقن رحمه الله تعالى(ت:٨٠٣ھ) فرماتے ہیں:

ومنها لا أدري من العلم، ولا يعبر بعبارات مترددة بين الجواب والاعتراف بعدم العلم، وأن ذلك لة ينقصه ولا يزيل ما عرف من جلالته، بل ذلك دليل على ورعه وتقواه ووفور علمه وعدم تكثره وتبجحه بما ليس عنده.

اس میں یہ بھی ہے کہ لا أدري(کہنا) علم کی نشانی ہے۔ ایسا نا کیا جائے کہ ایسی عبارات بول دی جائیں جو جواب اور عدم علم کے اعتراف کے بَین بَین ہوں۔ اور (لا أدري کہہ دینے میں ) آپ کی تنقیص نہیں ہے، نا آپ کی جلالت میں کمی کا باعث ہے۔ بلکہ یہ تو بندے کے ورع اور تقوی کی علامت ہے۔ ساتھ ہی اس کی بھی کہ (بندہ) علم کے ساتھ ہی بولتا ہے، اور جو علم نا جانتا ہو اس میں کلام نہیں کرتا۔
[التوضيح: ١٨٧/٣]

9 *ثم انطلق فلبثت مليا*

اس میں ایسی بات پر صبر کا اظہار ہے جس کا تعلق درس کے ساتھ نا ہو۔ کہ استاد خود جب مناسب سمجھے، بتا دے۔

10 *أتدرون من السائل*

ابن عثيمين رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:

إلقاء العالم على طلبته ما يخفى عليهم، لقول النبي ﷺ : أتدرون من السائل.

عالم کسی بات کو طلاب پر مخفی دیکھے تو ان کو خود بتا دے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اتدرون من السائل؟
[شرح الأربعين النووية: ٧٧]

حافظ نصراللہ جاوید

یہ بھی پڑھیں: یہ رکشہ ڈرائیور نہیں، مدینہ منورہ سے فاضل مفتی صاحب ہیں