سوال (1578)

صحیح البخاري میں جریج کے متعلق جو روایت ہے ، اس کے بارے میں ایک اعتراض کیا گیا ہے کہ کیا کوئی ماں ایسا کر سکتی ہے کہ معمولی سی بات پر بدکاری سے متہم ہونے کی بددعا دے دے ؟

جواب

آپ اس سے سوال کریں کہ اگر یہ بات قرآن میں ہوتی تو آپ اس پر یہ اعتراض کرتے ، وہ یہی جواب دے گا کہ پھر تو اعتراض نہیں کرتا ، جو لوگ حدیث پر معترض ہوتے ہیں ، ان سے حجیت حدیث پر بات کی جاتی ہے ، عذاب قبر اور نزول عیسیٰ وغیرہ پر بات نہیں کی جاتی ہے ، ان سے حدیث دجال پر بات نہیں کی جاتی ہے ، اس طرح ان سے حدیث جریج پر بات نہیں کی جائے گی ، یہ اہل علم نے ایسے لوگوں سے بات کرنے کے لیے بنیاد بیان کی ہے ۔
قرآن میں “ويلك” والدین نے ہی کہاں تھا جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو۔

“وَالَّذِىۡ قَالَ لِـوَالِدَيۡهِ اُفٍّ لَّكُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِىۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَقَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِىۡ‌ ۚ وَهُمَا يَسۡتَغِيۡثٰنِ اللّٰهَ وَيۡلَكَ اٰمِنۡ ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ  ۖۚ فَيَقُوۡلُ مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ”. [سورة الاحقاف : 17]

«اور وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا اف ہے تم دونوں کے لیے! کیا تم مجھے دھمکی دیتے ہو کہ مجھے( قبر سے) نکالا جائے گا، حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکیں۔ جب کہ وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے (ہوئے کہتے) ہیں تجھے ہلاکت ہو! ایما ن لے آ، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔ تو وہ کہتا ہے یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں»
اس طرح حدیث میں مسطح کی ماں نے “تعس مسطح” کہا تھا ۔ اس پر بھی غور و خوض ہو جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ