سوال (5576)
کیا حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لکھنی شروع ہوئی تھی، تین یا دو دلائل درکار ہیں؟
جواب
پہلے ان سے یہ پوچھیں وہ حدیث کو حجت مانتے ہیں؟
اگر حجت مانتے ہیں تو معاملہ اور مطالبہ ختم ہے۔
کیونکہ حجیت حدیث پر ایمان رکھنے والا اس طرح کا سوال کرتا ہی نہیں ہے۔
باقی حدیث بعض صحابہ کرام لکھتے تھے اور بعض سماع کے ذریعے یاد رکھتے تھے۔
باقی آپ جو بھی بیان کریں وہ نہیں مانیں گے ان سے بس سوال کریں جو میں نے اوپر شروع میں لکھا ہے۔
صحیفہ ھمام مطبوع ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻭﻫﺐ ﺑﻦ ﻣﻨﺒﻪ، ﻋﻦ ﺃﺧﻴﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺎ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﺣﺪ ﺃﻛﺜﺮ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻋﻨﻪ ﻣﻨﻲ، ﺇﻻ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻓﺈﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺘﺐ ﻭﻻ ﺃﻛﺘﺐ ﺗﺎﺑﻌﻪ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻫﻤﺎﻡ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ،
صحيح البخارى:(113)باب كتابة العلم،سنن دارمی:(500)ﺑﺎﺏ ﻣﻦ ﺭﺧﺺ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﺔ اﻟﻌﻠﻢ
ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: اﻛﺘﺒﻮا ﻷﺑﻲ ﺷﺎﻩ، صحيح البخارى : 2434 ،صحیح مسلم :1355
ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺖ ﺃﻛﺘﺐ ﻛﻞ ﺷﻲء ﺃﺳﻤﻌﻪ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﺭﻳﺪ ﺣﻔﻈﻪ، ﻓﻨﻬﺘﻨﻲ ﻗﺮﻳﺶ، ﻭﻗﺎﻟﻮا: ﺗﻜﺘﺐ ﻛﻞ ﺷﻲء ﺳﻤﻌﺘﻪ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺸﺮ ﻳﺘﻜﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﻐﻀﺐ ﻭاﻟﺮﺿﺎ؟ ﻓﺄﻣﺴﻜﺖ ﻋﻦ اﻟﻜﺘﺎﺏ، ﻓﺬﻛﺮﺕ ﺫﻟﻚ ﻟﺮﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﺄﻭﻣﺄ ﺑﺈﺻﺒﻌﻪ ﺇﻟﻰ ﻓﻴﻪ، ﻭﻗﺎﻝ: اﻛﺘﺐ ﻓﻮاﻟﺬﻱ ﻧﻔﺴﻲ ﺑﻴﺪﻩ، ﻣﺎ ﺧﺮﺝ ﻣﻨﻪ ﺇﻻ ﺣﻖ، سنن دارمی: 501 سنه حسن
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻗﺒﻴﻞ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ، ﻗﺎﻝ: ﺑﻴﻨﻤﺎ ﻧﺤﻦ ﺣﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻜﺘﺐ، ﺇﺫ ﺳﺌﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺃﻱ اﻟﻤﺪﻳﻨﺘﻴﻦ ﺗﻔﺘﺢ ﺃﻭﻻ: ﻗﺴﻄﻨﻄﻴﻨﻴﺔ ﺃﻭ ﺭﻭﻣﻴﺔ؟ ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻻ ﺑﻞ ﻣﺪﻳﻨﺔ ﻫﺮﻗﻞ ﺃﻭﻻ،
سنن دارمی: 503 سنده حسن
ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺘﺐ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﺇﻟﻰ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺣﺰﻡ ﺃﻥ اﻛﺘﺐ ﺇﻟﻲ ﺑﻤﺎ ﺛﺒﺖ ﻋﻨﺪﻙ ﻣﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺑﺤﺪﻳﺚ ﻋﻤﺮﺓ، ﻓﺈﻧﻲ ﻗﺪ ﺧﺸﻴﺖ ﺩﺭﻭﺱ اﻟﻌﻠﻢ ﻭﺫﻫﺎﺑﻪ،سنن دارمى: 504 صحیح
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻤﻠﻴﺢ، ﻗﺎﻝ: ﻳﻌﻴﺒﻮﻥ ﻋﻠﻴﻨﺎ اﻟﻜﺘﺎﺏ، ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﻋﻠﻤﻬﺎ ﻋﻨﺪ ﺭﺑﻲ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ} [ ﻃﻪ: 52] سنن دارمی: 506 صحیح
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻤﺜﻨﻰ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺛﻤﺎﻣﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﻧﺲ، ﺃﻥ ﺃﻧﺴﺎ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﺒﻨﻴﻪ: ﻳﺎ ﺑﻨﻲ ﻗﻴﺪﻭا ﻫﺬا اﻟﻌﻠﻢ، سنن دارمی: 508 سنده حسن
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺇﺩﺭﻳﺲ، ﻋﻦ ﻣﻬﺪﻱ ﺑﻦ ﻣﻴﻤﻮﻥ، ﻋﻦ ﺳﻠﻢ اﻟﻌﻠﻮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺃﺑﺎﻥ ﻳﻜﺘﺐ ﻋﻨﺪ ﺃﻧﺲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻓﻲ ﺳﺒﻮﺭﺓ، سنن دارمى: 509 سنده حسن
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻋﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺟﺎﺑﺮ، ﺃﻧﻪ: ﺳﺄﻝ ﺃﺑﺎ ﺃﻣﺎﻣﺔ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻋﻦ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻌﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﺬﻟﻚ، سنن دارمى: 510 سنده جيد
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻨﻌﻤﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺣﻜﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻛﻨﺖ ﺃﺳﻴﺮ ﻣﻊ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻓﻲ ﻃﺮﻳﻖ ﻣﻜﺔ ﻟﻴﻼ، ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺤﺪﺛﻨﻲ ﺑﺎﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﺄﻛﺘﺒﻪ ﻓﻲ ﻭاﺳﻄﺔ اﻟﺮﺣﻞ، ﺣﺘﻰ ﺃﺻﺒﺢ ﻓﺄﻛﺘﺒﻪ، سنن دارمى: 516 صحیح
مزید سنن دارمی کا یہی باب،ﺑﺎﺏ ﻣﻦ ﺭﺧﺺ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﺔ اﻟﻌﻠﻢ کا مطالعہ کریں۔
وحی کی حفاظت کا ذمہ خود رب العالمین نے لیا اور قرآن وحدیث دونوں وحی ہیں۔
اور ان کی حفاظت کے لئے لکھا ہونا شرط نہیں ہے مگر قرآن اور احادیث حفظ وکتابت کے ذریعے ہی ہم تک پہنچیں ہیں اور یہی دو بنیادی ذریعے تھے حفاظت علم کے۔
اس بارے دیگر کتب کا مطالعہ بھی مفید ہے مثلا دیکھیے۔ شرح معاني الآثار للطحاوي، السنن الكبرى للنسائي، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقى ﺑﺎﺏ ﻣﻦ ﺭﺧﺺ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﺔ اﻟﻌﻠﻢ ﻭﺃﺣﺴﺒﻪ ﺣﻴﻦ ﺃﻣﻦ ﻣﻦ اﺧﺘﻼﻃﻪ ﺑﻜﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﺛﻨﺎﺅﻩ،جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر ﺑﺎﺏ ﺫﻛﺮ اﻟﺮﺧﺼﺔ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻌﻠﻢ،تقييد العلم للخطيب البغدادى وغيره،
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
پیارے بھائی جس طرح ابراھیم علیہ السلام کو جب نمرود نے کہا کہ میں زندہ مردہ کرتا ہوں تو وہ اسکا رد کر سکتے تھے لیکن اس کی بجائے ایک ایسا سوال کر دیا کہ جس کا نمرود کے پاس جواب نہیں تھا کہ میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تم مغرب سے نکالو
آپ بھی منکرین حدیث کو کہیں کہ فرض کریں ہم مانتے ہیں کہ ہمارے پاس حدیث کے رسول اللہ ﷺ کے دور میں لکھنے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مگر یہ سینہ بہ سینہ تو صحابہ اور تابعیوں کے ذریعے آگے چلی ہے پس لکھا ہوا نہ ہونے سے آپ کے نظریے کو کیا فائدہ ہو گا تو وہ لازمی یہ کہیں گے کہ کسی چیز کے حجت ہونے کے لئے اسکا لکھا ہوا ہونا ضروری ہوتا ہے پس قرآن رسول اللہ ﷺ کے دور میں لکھا گیا تھا اور حدیث سینہ بہ سینہ چلی ہے پس سینہ بہ سینہ میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور لکھی ہوئی ہونے میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔
یہ اوپر والا اقرار پہلے ان سے لازمی کروا لینا ہے جب وہ اچھی طرح یہ رٹ لگانے لگیں کہ جی لکھی ہوئی چیز حجت ہوتی ہے زبانی آگے منتقل ہوئی چیز حجت نہیں ہوتی ہے تو پھر ان سے مندرجہ ذیل سوال کریں۔
کیا قرآن کے اعراب (زبر زیر نقطے وغیرہ) بھی اس دور میں لکھے گئے تھے یا وہ زبانی سینہ ب سینہ آگے چلے تھے۔ تو وہ مجبورا مانے گا کہ جی ہاں وہ تو بعد میں ہی لگائے گئے تھے۔
تو اس سے پوچھیں کہ پھر آج جو ہم سورہ فاتحہ میں انعمتَ کو زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اسکو کوئی انعمتُ پیش کے ساتھ پڑھ لے تو اسکو آپ کیسے منع کریں گے وہ کہے کہ چونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لکھا ہوا نہیں تھا پس یہ اصل میں تو انعمتُ تھا (یعنی نعوذ باللہ میں نے ان پہ انعام کیا )
پس اس طرح کی کئی دلیلیں دی جا سکتی ہے پس کسی چیز کا سینہ ب سینہ چلنا بھی ان منکرین حدیث کے ہاں حجت ہی ہوتا ہے ورنہ انکا قرآن بھی نہیں بچتا ہے۔
ویسے اصل بات یہ ہے کہ یہی تو یہ چاہتے ہیں کہ قرآن حجت رہے یا نہ رہے ہم حدیث کو حجیت سے کسی طرح نکال دیں کیونکہ یہ جتنے منکرین حدیث ہیں یہ سارے ماڈرن لوگ ہیں اور شریعت کی پابندیاں انکو مشکل لگتی ہیں پس حدیث میں چونکہ زیادہ وضاحت ہوتی ہے اور اس میں تاویل کرنا مشکل ہو جاتا ہے پس وہ حدیث کو نہیں دیکھ سکتے ہاں قرآن میں چونکہ تفصیل کی بجائے عمومی اجمالی بات ہوتی ہے تو اسکی تاویل کرنا انکو آسان لگتی ہے جیسا کہ نماز یعنی صلوۃ کا معنی چوتڑے ہلانا بھی ہے تو وہ جو صبح شام ریس کورس جا کر ورزش کرتے ہیں اسکو ہی نماز بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا کے تحت ہم صبح اور شام کو ریس کورس میں جا کر نماز پڑھتے ہیں یعنی سیر کرتے ہیں تو چوتڑے ہلتے ہیں تو نماز ہو جاتی ہے۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ