سوال (5072)
ابھی ابھی عصر کی نماز کے بعد ایک آدمی مسجد میں آیا اور اس نے کہا صحیح مسلم کی باسط 6220 نمبر حدیث پڑھو۔ پھر وہ اس پر ڈٹ گیا۔ میں نے اس کو جواب دیا، سو جو جواب دیا۔۔۔
لیکن میں اس کا علماء سے تفصیلی جواب کا ملتمس ہوں۔
كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالٰی عَنهُم
بَاب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
6220 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ، خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: «ادْعُوا لِي عَلِيًّا» فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي۔
جواب
پیارے بھائی اپ نے یہاں ویسے اس آدمی کا مقصد نہیں بتایا جو وہ اس آیت سے ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔
ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے حسین ؓ کی فضیلت ثابت کرنا چاہ رہا ہو لیکن اس کے تو ہم سب قائل ہیں پس مجھے لگتا ہے کہ وہ امیر معاویہ ؓ پہ طعن کرنا چاہ رہا ہو کہ انہوں نے کیسے علیؓ کو سب کرنے (یعنی انکی ہاں لعنت کرنے) کا حکم دیا۔
تو پیارے بھائی اسکو پہلی بات تو یہ بتائیں کہ اسکو جس نے بھی یہ حدیث اس مقصد کے لئے بتلائی ہے اس سے ہی پوچھ لیں کہ لغت اور شریعت میں سب کا کیا کیا مطلب بیان کیا گیا ہے وہ دھوکے باز نہیں ہو گا تو ضرور بتا دے گا کہ اسکے مندرجہ ذیل مطلب ہو سکتے ہیں۔
1۔ اس لٖفظ معنی گالی دینا بھی ہے۔
2۔ کسی کو غلط کہنا بھی ہے۔
3۔ کسی کو کسی بات پر ٹوکنا بھی ہے۔
4۔ کسی کو آڑے ہاتھوں لینا اور تنقید کرنے کو بھی سب ہی کہتے ہیں۔
اسکے لئے مندرجہ ذیل روایات دیکھیں۔
صحیح مسلم (کتاب الفضائل، باب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث ہے۔
فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم وقال لهما ما شاء الله أن يقول قال ثم غرفوا بأيديهم۔
یہ واقعہ تبوک کے متعلق ہے، یہا ں صحابہ نے کچھ غلطی کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرزنش کی اور زیادہ سے زیادہ سخت سست کہا ہوگا۔ پر گالیاں نہیں دیں ہونگی اور نہ ہی معاذ اللہ برا بھلا کہا ہوگا کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے پاک ہے۔
سب معنی تنقید حافظ ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں لکہتے ہیں۔
قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ
” لتنتهین عن سبک او لنهجون ربک ”
یعنی
آپ ہمارے معبودوں کو سَبّ (یہاں قریش کا مطلب یہ تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کا تزکرہ ایسے انداز میں نہ کریں کہ ان کی شان میں کمی ہو) کرنے سے باز رہیں، نہیں تو ہم تھمارے رب کی ہجو شروع کردیں گے۔ تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 164۔
اور جناب ابو طالب نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ کیا کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ: ان کو کہیں کہ میں انہیں ایسی دعوت دیتا ہوں جو ان کی بت پرستی سے بہتر ہے۔۔۔ یعنی لا اللہ الا للہ
اب کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گالیاں دیں ہونگی۔ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ یہ بے زبان ہیں نہ کوئی نفع پہنچاتے ہیں نہ نقصان، کتنے بے عقل ہو کہ خود ہی انہیں بناتے ہو اور خود ہی پوجتے ہو۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ علیہ السلام جھوٹے معبودوں پر تنقید کرتے تھے اسے وہ ” سَبّ ” کہتے تھے۔
اب ایک بات کلیئر ہونے کے بعد آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ یہاں امیر معاویہ جو جو سب کا لفظ استعمال کیا ہم اسکا کونسا معنی لیں گے ہم گالی والا معنی کیوں نہیں لیں گے اور خالی تنقید والا معنی کیوں لیں گے اسکو پہلے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
ایک مسلمان جس کی اولاد نہیں وہ کسی قبر پہ کھڑا ہو کر ہاتھ اٹھا کر دل ہی دل میں کچھ مانگ رہا ہے اب اسکے تین احتمالات ہو سکتے ہیں۔
1۔ پہلا یہ کہ وہ قبر والے سے اپنے لئے بیٹا مانگ رہا ہو (اب یہ کھلا شرک ہے)
2۔ دوسرا یہ کہ وہ اللہ سے اپنے لئے بیٹا مانگ رہا ہو مگر اس میں قبر والے کا وسیلہ بنا رہا ہے کہ اس کے وسیلے سے مجھے بیٹا دے (اب یہ بات شرک نہیں بلکہ بدعت ہو سکتی ہے)
3۔ تیسرا یہ کہ وہ اللہ سے اس قبر والے کی مغفرت کی دعا مانگ رہا ہو کہ اے اللہ اسکو معاف کر دے (یہ عین سنت ہے)
اب چونکہ وہ دل میں دعا مانگ رہا ہے ہمیں علم نہیں تو ہم اندازہ لگائیں گے کہ ان تینوں میں سے وہ کون سا کام کر رہا ہے اسکے لئے اسکی باقی زندگی کو دیکھیں گے اگر کسی اور وقت ہم نے اسکو یہ تقریر کرتے سنا ہو کہ قبر والے سے مانگنا شرک یا گناہ ہوتا ہے تو پھر اوپر پہلے والا احتمال ختم ہو جائے گا۔
پھر ہم نے اسکو کسی وقت یہ بھی سنا ہو کہ قبر والے کا وسیلہ بنانا بھی درست نہیں ہوتا تو دوسرا احتمال بھی ختم ہو جائے گا اور ہم برملا کہیں گے کہ وہ صرف تیسرا کام کر رہا ہے کہ اس قبر والے کی بخشش کے لئے دعا مانگ رہا ہے۔
بالکل اسی طرح اوپر امیر معاویہؓ کے سب کہنے کے چونکہ بہت سے مطلب ہو سکتے ہیں تو ہم امیر معاویہؓ کی دوسری زندگی کو دیکھتے ہیں اگر ہمیں وہاں کوئی ایسا قرینہ مل جائے کہ انہوں نے علی ؓ کو گالی دی ہو تو پھر یہاں سب کا معنی گالی ہی کیا جائے گا اور اگر باقی زندگی میں کوئی بھی ایسا قرینہ موجود نہ ہو تو پھر قرآن کی آیت اجتنبوا کثیرا من الظن کی پیروری کرتے ہوئے اچھا گمان کرنا فرض ہے اور ہم سب کا معنی خالی تنقید ہی کریں گے۔
بھائی جان آپ کو یہاں سب کا معنی گالی کی بجائے خالی تنقید ہونے کی ایک اور بہت بڑی دلیل بتاتا ہوں جو خود اسی حدیث میں موجود ہے کہ جس سے اس بندے کا منہ بند ہو جائے گا۔
وہ دلیل یہ ہے کہ اس میں سعد ؓ نے سب نہ کرنے کی وجہ بتائی ہے اب کوئی بھی تھوڑی سی فقہ کی سمجھ بوجھ رکھنے والا یا عقل سلیم رکھنے والا سوچے تو اسکو پتا چلے گا کہ اگر اس میں سب کا معنی گالی دینا ہوتا تو کیا سعد ؓ اس سے نکار کی وہ وجہ بتاتے جو یہاں بتائی ہے بلکہ کہتے کہ امیر معاویہ تم یہ کیا کہ رہے ہو کیا کسی مسلمان کو گالی دی جا سکتی ہے ان عقل کے اندھوں نے اس طرح کی تفسیر کر کے الٹا سعد ؓ کو ہی نعوذ باللہ داغدار کر دیا کہ وہ گالی دینے کے حکم پہ بھی اس سے نہیں روکتے بلکہ ایک اور وجہ بتا رہے ہیں جبکہ شریعت میں تو ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے خلاف بات کی جا رہی ہو تو فلا تقعدوا معھم اور اسی طرح من رای منکم منکرا والی روایت بھی ہے آپ نے سعدؓ کو کیا سمجھ لیا ہے اللہ ہمیں حق سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ