“حدیث کی تشریعی حیثیت”

حدیث کی لغوی تعریف:
حدیث کا لفظ لغت میں قدیم کی ضد ہے، جس کا معنی جدید ہے۔

حدیث کی اصطلاحی تعریف:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل، تقریر اور سیرت و شمائل کو حدیث کہتے ہیں۔

سنت اور حدیث میں فرق:
سنت اسوہ و طریقے کو کہتے ہیں، ہمارے ہاں یہ شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ سنت کا معنی ہے کہ ایسا عمل جو نبوی دور سے چلتا ہوا آ رہا ہے، کہا جاتا ہے کہ سنت ہے تو قابل عمل ہے ورنہ نہیں۔ یاد رہے کہ یہ اصطلاح حادث ہے، منکرین حدیث اس اصطلاح کے ذریعے بین بین راستہ تلاش کرتے ہیں، سنت محدثین، فقہاء اور اصولیین کے ہاں حدیث کے مترادف ہے، عملاً اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سنت نبویہ سے مراد احادیث نبویہ ہیں، یہ شوشہ برّصغیر میں سر سید احمد خان نے چھوڑا ہے اور بعد میں عبداللہ چکڑالوی اور امین احسن اصلاحی جیسے لوگوں نے اس راستے کا انتخاب کیا، ان منکرین حدیث نے اس جیسے شوشوں کا سہارا لے کر معجزات انبیاء، جنت و جہنم، معراج جسمانی اور کئی چیزوں کا انکار کیا ہے۔

حدیث کی تشریعی حیثیت:
یاد رکھیں کہ شریعت کے دو بنیادی مصادر ہیں، ایک قرآن اور دوسرا حدیث، قرآن و حدیث دونوں پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس طرح قرآن پر عمل کیا جائے گا۔ اس طرح حدیث پر بھی عمل کیا جائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی وحی:

“وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ۞ اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ‏” [النجم: 3,4]

«اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے، تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے»

نوٹ: اگرچہ عام مفسرین نے اس آیت کو قرآن کریم سے منسلک کیا ہے، لیکن لفظ نطق کے عموم کی وجہ سے یہ آیت احادیث کو بھی محیط ہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے متعلق لفظ انزال، تنزیل، تلاوت، قراءت اور تعلیم بیان فرمایا ہے جبکہ نطق کا لفظ کسی بھی جگہ قرآن کے لیے استعمال نہیں ہوا، لہذا “وَمَا يَنْطِقُ” کے الفاظ حقیقتاً احادیث کے لیے ہیں۔ [انکار حدیث سے انکار قرآن تک: ص: 107]

حدیث قرآن کی تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكَ الۡـكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ” [سورة النحل: 64]

«ہم نے آپ پر کتاب کو صرف اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے کتاب کی تبین و توضیح کردیں»
(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

«اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ لِتَحۡكُمَ بَيۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰٮكَ اللّٰهُ‌» [النساء: 105]

«بے شک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے»
(3) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اِنَّ عَلَيۡنَا جَمۡعَهٗ وَقُرۡاٰنَهٗۚ ۞ فَاِذَا قَرَاۡنٰهُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَهٗ‌ۚ ۞ ثُمَّ اِنَّ عَلَيۡنَا بَيَانَهٗؕ ۞ [القيامة: 17- 19]

«بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور آپ کا اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے، تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر، پھر بلاشبہ اسے واضح کرنا ہمارے ذمے ہے»

حدیث قرآن کی تائید و تاکید:
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

“أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ” [سنن ابوداؤد: 4604]

«سنو ، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے: اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہوجائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے»

شریعت کے کئی احکامات صرف احادیث سے ثابت ہیں:
مثال نمبر: 1
قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ مردار حرام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡمَيۡتَةُ وَالدَّمُ وَلَحۡمُ الۡخِنۡزِيۡرِ” [المائدة: 3]

«تم پر مردار، خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا گیا ہے»
لیکن اس سے دو چیزیں مستثنیٰ ہیں، جن کی وضاحت حدیث میں آئی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏الْحُوتُ وَالْجَرَادُ” [سنن ابن ماجة: 3218، صحيح]

«ہمارے لیے دو مردار: مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں»
مثال نمبر: 2
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلت و حرمت کا ایک اصول بیان کیا ہے کہ کچلیوں والے جانور اور پنجوں والے پرندے حرام ہیں۔ یہ بات قرآن مجید میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ:

“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ” [صحیح مسلم: 1934، سنن ابي داود: 3803]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دانت والے درندے، اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے»

قرآن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دس صفات کے ساتھ کلئیر کیا ہے۔

“هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ” [الجمعة: 2]

«وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے»

(1) تلاوت قرآن کرنا:
مندرجہ بالا آیت میں “يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ” کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سب پہلی یہ ذمے داری دی گئی ہے کہ آپ لوگوں پر قرآن کی آیات کی تلاوت کریں، یہ ذمے داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسن طریقے سے مکمل کیا تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کو یہ بتانا کہ یہ قرآن کی آیت ہے، یہ بھی حدیث ہے۔ منکرین حدیث سے یہ سوال ہے کہ کس نے بتایا ہے کہ یہ قرآن کی آیت ہے، یہ فلاں سورۃ ہے۔ اگر جواب یہ آئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتانا بھی حدیث ہے۔

(2) تزکیہ کرنا:
مندرجہ بالا آیت میں “وَيُزَكِّيۡهِمۡ” کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کی تزکیہ کی ذمے داری دی ہے کہ امت کو گناہوں سے پاک و صاف کرنے کی کوشش کریں، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تزکیہ کے لیے جو کچھ فرمایا ہے، وہ حدیث ہے، تزکیہ نفس کے لیے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف جانا پڑے گا، تو قرآن کی اس آیت کے مطابق تزکیہ نفس کے لیے احادیث کی طرف جانا ضروری ہے، منکرین حدیث سے یہ سوال ہے کہ “وَيُزَكِّيۡهِمۡ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تزکیہ کریں گے وہ حدیث ہوگی یا قرآن؟

(3) کتاب کی تعلیم دینا:
مندرجہ بالا آیت میں “وَ يُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ” کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ کو تیسری یہ ذمے داری دی ہے کہ آپ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں، کتاب کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن کی مشکل آیات کی وضاحت کرنا، تفسیر بتانا یہ سب حدیث ہے، گویا امت شروع سے لے کر آج تک قرآن کی تفسیر و توضیح کے لیے حدیث کا محتاج ہے۔

(4) حکمت کی تعلیم دینا:
مندرجہ بالا آیت میں ” وَ يُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَ الۡحِكۡمَةَ” کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چوتھی یہ ذمے داری دی ہے کہ آپ لوگوں کو حکمت کی تعلیم دیں، مفسرین کے ہاں یہاں حکمت سے مراد حدیث ہے، کیونکہ کتاب کا عطف حکمت پر ہے، عطف مغایرت کا تقاضہ کرتا ہے، یعنی کتاب الگ چیز ہے اور حکمت الگ چیز ہے، یہاں کتاب اور حکمت دونوں سے قرآن مجید مراد لینا درست نہیں ہے، بلکہ حکمت سے مراد حدیث ہے، یہی قول امام شافعی کا ہے۔

(5) اسوة:
قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ایک آئیڈیل اور نمونہ کہا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا” [الأحزاب: 21]

«بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو»
اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت موجود ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے لیے حدیث کی طرف جانا پڑے گا، ورنہ اس آیت پر عمل نہیں ہوگا، گویا حدیث کے بغیر منکرین حدیث قرآن پر بھی عمل نہیں کر سکتے ہیں۔

(6) حَكم:
قرآن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم یعنی فیصلہ کرنے والا کہا ہے، یعنی اپنی زندگی کے تمام فیصلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کروانے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا” [النساء: 65]

«پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا»
زندگی کے اختلاف اور معاملات کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانا پڑے گا، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے، وہ قرآن میں تو موجود نہیں ہے، یعنی حدیث کی طرف جانا پڑے گا۔

(7) مطاع:
قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو “مطاع” کی صفت سے متصف کیا ہے، یعنی ایسا شخص جس کی اطاعت کی جائے، بلکہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت کہا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“مَنۡ يُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰهَ ‌ۚ وَمَنۡ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ حَفِيۡظًا” [النساء: 80]

«جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا»
سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قرآن سے ہو سکتی ہے، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات قرآن میں موجود ہیں۔ اگر جواب آئے کہ موجود نہیں ہیں تو حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

(8) حلت و حرمت کا اختیار:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شارع اور ناطق وحی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کسی بھی چیز کے لیے حلت و حرمت کا اختیار رکھتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ الۡخَبٰۤئِثَ” [الأعراف: 157]

«اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سے ہٹ کر احادیث میں کئی چیزوں کی حلت و حرمت بیان کی ہے، کیا ان حلت کی چیزوں کو منکرین حدیث نہیں کھاتے ہیں۔

(9) صاحب اخلاق:
قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب اخلاق کہا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيۡمٍ” [القلم: 4]

«اور بلاشبہ یقینا تو ایک بڑے خلق پر ہے»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کے لیے حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، کیونکہ قرآن نے من و عن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو بیان نہیں کیا ہے۔

(10) متبع:
قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو متبع کہا ہے، یعنی ایسی شخصیت جس کی اتباع کی جائے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ‌ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ” [آل عمران: 31]

«کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گااور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے»
سوال یہ ہے کہ قرآن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ممکن ہے؟ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی طرف لوٹنا پڑے گا۔

نوٹ: اتباع اور اطاعت دو الفاظ ہیں اور یہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر استعمال ہوئے ہیں، جب یہ الفاظ الگ الگ استعمال ہوں، تو اطاعت اتباع کو اور اتباع اطاعت کو محیط ہوتا ہے اور جب یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوں، تو اطاعت کا اطلاق اقوال کی پیروی پر اور اتباع کا اطلاق اعمال میں کسی کی پیروی پر ہوتا ہے۔

منکرین حدیث کے اعتراضات:
یہاں ہم صرف چند اعتراضات بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔
اعتراض: 1
اتنی حدیثوں کے صحابہ کرام حافظ کیسے تھے؟
پہلی بات یہ ہے کہ ہماری میموری کو صحابہ کرام کی میموری پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، صحابہ کرام کے حافظے تیز ہوا کرتے تھے، آج کل ہمارے حافظے اس لیے بھی ماند پڑ گئے ہیں کہ ہم فسق و فجور میں سب سے آگے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اس دور میں لکھنے کا رواج کم تھا، عرب کا بچہ بھی علم الانساب کا حافظ تھا، ان کے اپنے نسب نامے سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدنا آدم علیہ السلام تک یاد ہوا کرتے تھے، اس کے علاؤہ تاریخ، قصیدے اور حکمتیں سینہ در سینہ محفوظ کرتے تھے، اس لیے وہ دور حافظے کا تھا۔ صحابہ کرام کثرت کے ساتھ ساتھ احادیث حفظ کیا کرتے تھے۔

مثال نمبر: 1
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

“أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا كَمَا قَالَهُ” [صحيح البخاري: 525]

«فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بولا کہ میں نے اسے اسی طرح یاد رکھا ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا»

مثال نمبر: 2
ایک موقعے پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک پیش آمدہ معاملے میں احادیث رسول مل کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع سے سوال کیا کہ اس معاملے کے حل کے لیے کسی کو حدیث نبوی معلوم ہے؟ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آگے بڑھے، جس پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خوش ہوکر فرمایا:

“الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [سنن الدارمي: 163]

«اس مولائے کریم کی تعریف ہے ، جس نے ہم میں ان لوگوں کو رکھا جو احادیث نبویہ کے حافظ ہیں»
اس سے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حافظ الحدیث ہونا ثابت ہوا ہے۔

کثرت احادیث عقل کے لحاظ سے کوئی تعجب کی بات نہیں، علامہ فضل احمد غزنوی نے لکھا ہے کہ ماہرین لسانیات تسلیم کرتے ہیں کہ ایک شخص روزانہ اوسطا 36 ہزار کلمات بولتا ہے۔ پرویزی اور دیگر منکرین حدیث سائنس دانوں کی بات کو قرآن و حدیث سے بھی زیادہ قوی سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کی 23 سالہ زندگی کے شب و روز دعوت و تبلیغ میں صرف کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے 36 ہزار روزانہ کلمات کے حساب سے 23 سال کے کلمات کا اندازہ لگائیں تو یہ 29 کروڑ 80 لاکھ اور 80 ہزار کلمات بنتے ہیں۔
صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احوال کو حفظ کیا اور کتابت و روایت کے ذریعے سے انھیں محفوظ رکھا تو اس میں کون سی حیرت کی بات ہے۔ منکرین حدیث نے اپنی تحریک کے تھوڑے سے عرصے میں کتنی کتابیں اور رسالے شائع کیے ہیں اور پرویز صاحب کے مقلدین ان کے اقوال و نظریات کو کسی طرح یاد کرتے اور انھیں نقل کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الصادق المصدوق نبی سلام کے ارشادات مبارکہ کی کوئی حفاظت نہیں کی؟ لہذا کثرت احادیث سے انکار کرنا بے دینی کے علاوہ بے عقلی کی بھی انتہا ہے۔ [انکار حدیث سے انکار قرآن تک: ص: 323]

اعتراض: 2
احادیث بعد میں لکھی گئی ہیں ، اس لیے احادیث پر اعتبار و اعتماد رکھنا صحیح نہیں ہے، ہمارے لیے صرف قرآن کافی ہے۔ حالانکہ کئی احادیث سے کتابت حدیث عہد نبوی میں ثابت ہے۔
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو شاہ جو یمن سے آیا تھا، ان کے لیے صحابہ کرام کو فرمایا تھا کہ:

“اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ” [صحيح البخاري: 2434]

«ابو شاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ دو»

(2) سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا؟، ‏‏‏‏‏‏فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اكْتُبْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ” [سنن ابي داود: 3646، صحيح]

«میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کردیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا»

اعتراض: 3
احادیث عقل کے خلاف ہیں؟
یاد رہے کہ عقل کی دو قسمیں ہیں۔

(1) عقل سلیم:
عقل سلیم وہ ہے جو قرآن و حدیث کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے، وہ حق ہے، خواہ وہ عقل میں آئے یا نہ آئے۔

(2) عقل ضعیف:
عقل ضعیف جو شریعت کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے، ایک حقیر مخلوق اپنی ناقص عقل کی وجہ سے خالق کی شریعت سے ٹکر کھاتی ہے۔
ہم یہاں بطور نمونہ چند قرآن کی مثالیں ذکر کرتے ہیں، جو عقل میں نہیں آتی ہیں، تو کیا سوال ہے کہ قرآن کا بھی انکار کیا جائے گا۔

(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“قُلۡنَا يٰنَارُ كُوۡنِىۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَۙ‏” [الأنبياء: 69]

«ہم نے کہا اے آگ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا»
آگ کا کام جلانا ہے، قرآن کی اس آیت کے مطابق آگ ٹھنڈی ہوگئی تھی، سوال یہ ہے کہ کیا آگ کی ٹھنڈی ہونا یہ چیز عقل میں آتی ہے، منکرین حدیث کی طرف سے جو جواب قرآن کے لیے دیا جائے، وہی جواب حدیث کا ہے۔

(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَيۡنِهِمَا نَسِيَا حُوۡتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيۡلَهٗ فِى الۡبَحۡرِ سَرَبًا‏ ۞ فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰٮهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا لَقَدۡ لَقِيۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا” [الكهف: 61,62]

«تو جب وہ دونوں ان کے آپس میں ملنے کے مقام پر پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے، تو اس نے اپنا راستہ دریا میں سرنگ کی صورت بنالیا۔پھر جب وہ آگے گزر گئے تو اس نے اپنے جوان سے کہا ہمارا دن کا کھانا لا، بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تو بڑی تھکاوٹ پائی ہے»
یاد رہے کہ مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، معلوم ہوا وہ مچھلی مردہ تھی، پھر اگر اسے نمک لگا کر خشک نہ کیا جائے تو وہ شدید بدبو دار ہو جاتی ہے اور کیڑوں سے بھر جاتی ہے۔ معلوم ہوا اسے نمک لگا کر خشک کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مردہ مچھلی تیرتی ہے، قرآن مجید کے مطابق مردہ مچھلی نے سمندر میں سرنگ کی طرح راستہ بنا کر چلی گئی ہے، کیا یہ چیز عقل میں آتی ہے۔
اور کئی مثالیں قرآن سے ذکر کی جا سکتی ہیں، یاد رہے کہ یہ شریعت ہے، خالق کی شریعت ہے، قرآن و حدیث دونوں وحی الٰہی ہیں، وحی الہی کے سامنے اپنی ناقص عقل کو ٹکرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

کیا احادیث آپس میں متعارض ہیں۔
منکرین حدیث احادیث میں تعارض و تناقض کا الزام لگاتے ہیں، حالانکہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ احادیث میں سرے سے تضاد ہی نہیں، چنانچہ امام خطیب رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے:

“لَا أَعْرِفُ أَنَّهُ رُوِيَ عَنْ رَسُولِ الحَدِيثَانِ بِإِسْنَادَيْنِ صَحِيحَيْنِ مُتَضَادَّيْنِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَلْيَأْتِ حَتَّى أُوَلِّفَ بَيْنَهُمَا” [الكفاية: 432]

«میں نہیں جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو صحیح متضاد احادیث مروی ہوں، جس کے پاس دو ایسی احادیث ہیں تو وہ لے آئے، میں جمع و تطبیق دوں گا»

فہم قرآن کے لیے صحابہ کرام احادیث کی طرف محتاج تھے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ [سورة الأنعام آية: 82] قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ كَمَا تَقُولُونَ وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ، بِشِرْكٍ أَوَ لَمْ تَسْمَعُوا إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [سورة لقمان آية: 13] [صحيح البخاري: 3360]

«جب یہ آیت اتری الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی قسم کے ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں ایسا کون ہوگا جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعہ وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ میں ظلم سے مراد شرک ہے کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت نہیں سنی کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا، بیشک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: تباہی کی دہلیز پر کھڑا معاشرہ