(باپ اپنے بیٹے کے لیے پہلا آئیڈیل ہوتا ہے۔ باپ سے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے،حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ علم و عمل کے اعلیٰ مقام پر فائز تو تھے ہی مگر انہوں  نے بطور والد بھی اپنے کردار اور عمل سے بیٹوں کی بہت تربیت کی، ان کو بطور والد کیسا پایا، اس سلسلے میں  اپنے تاثرات ان کے بیٹے  عمر بھٹوی حفظہ اللہ نے قلم بند کیے ہیں۔ یہ تاثرات انہی کے قلم سے قارئین کی نظر کیے جاتے ہیں۔ ادارہ)

والد صاحب اپنی آمدنی سے صدقہ ضرور کرتے تھے اس سلسلے میں  فرماتے تھے:”جب سے میری تنخواہ شروع ہوئی  (سترہ سال کی عمر میں پڑھانا شروع کردیا تھا) تب سے کچھ نا کچھ اللہ تعالیٰ کا حصہ علحیدہ کردیتا ہوں پھر جہاں ضرورت ہو وہاں خرچ کردیتا ہوں۔ تمہیں بھی یہی نصیحت کرتا ہوں”۔

والد صاحب ہمارے ہاتھ سے صدقہ کرواتے تاکہ ہمیں بھی عادت ہوجائے۔ان کا معمول تھاکہ ہر ماہ تنخواہ میں سے گاؤں کی مسجد کے لیے کچھ حصہ نکالتے جو والدہ کے پاس رکھ دیتے اس کا علم والدہ کو ہی ہوتا تھا اس بارے  نہ خود کبھی بتایا کہ وہ کتنا ہے نہ والدہ نے بتایا کہ وہ کتنا تھا۔ یہ راز دونوں میاں بیوی کا تھا جو ان کا اللہ کے ساتھ معاملہ تھا۔
میں نے ایک دفعہ والدہ محترمہ  سے پوچھنے کی کوشش کی کہ ابا جی صدقے کی مد میں کتنے پیسے آپ کے پاس رکھتے ہیں انہوں نے بتانے سے  صاف انکار کردیا اور کہا: کہ تمہارے والد نے اس بارے میں بتانے سے منع کررکھا ہے ۔اس واقعے سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ ان کے حکم  کی بجا آوری کو ہمیشہ ہر چیز سے مقدم رکھتی تھیں۔

گاؤں کے لڑکے جو مرکز میں زیر تعلیم تھے، ان سے مل کر بڑا خوش ہوتے۔ جب ان سے ملاقات ہوتی تو ان کی خاطر مدارت کرتے، طلبہ کھانے پینے میں جھجھک محسوس کرتے فرماتے بھائی جان! “کھاؤ آپ کے لیے ہی ہے ” پھر انہیں کھاتے دیکھ کر خوش ہوتے رہتے۔ ساتھ حال احوال دریافت کرتے رہتے۔ کبھی کبھار طلبہ کی علمی استعداد معلوم کرنے کے لیے ان کے نام کا صیغہ پوچھ لیتے۔جب وہ جانے لگتے تو جو ان کی ضیافت کے لیے سامنے پیش کیا ہوتا وہ لفافے میں ڈال کر ہاتھ میں پکڑا دیتے۔ کئ دفعہ ہاتھ میں کچھ پیسے بھی تھما دیتے اور دروازے تک ساتھ چھوڑنے آتے۔

مجھے تین چار ماہ  بعد پچاس ہزار روپیہ دیتے کہ وہ نورستانی لڑکے جو جامعہ میں پڑھتے ہیں ان کا ماہانہ مقرر کردو۔ جب ختم ہو جائے تو یاد کروا دینا مزید پیسے مل جائیں گے۔آخری سال گاؤں کے لڑکوں کا ماہانہ بھی لگا دیا تھا۔ وہ طلبہ جو بخاری کلاس میں پڑھتے تھے، انہیں ایک ہزار روپیہ دیتے۔ باقی لڑکوں کو پانچ پانچ سو روپیہ دیتے اور فرماتے انہیں بتانا نہیں  کہ یہ پیسے میں نے انہیں دیے ہیں۔ یہ پیسے اپنی ڈائری پر درج کرلیتے کہ عمر، عبداللہ، عبدالرحمن کو اتنے پیسے طلبہ کے وظیفے کی مد میں دیے ہیں۔

وفات سے ایک دن پہلے میرے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ مجھے دعوت دی آؤ کھانے میں شریک ہوجاؤ میں ساتھ بیٹھ گیا فارغ ہونے کے بعد کہنے لگے ایک جگہ سے کچھ پیسے آنے ہیں تمہیں دوں گا اس سال دوبارہ سے طلبہ کا ماہانہ خرچ دینا شروع کردو۔

اکثر بڑے بھائی عبدالرحمن اور عبداللہ کے پاس چار پانچ لاکھ رکھوا دیتے کہ بعد میں واپس لے لوں گا جو ضرورت مند آتا پرچی لکھ دیتے کہ برخوردار کو میرے حساب سے اتنے پیسے دے دو۔ کچھ دن کے بعد پوچھتے میرے پیسوں سے کچھ بچا ہے یا ختم ہوگئے ؟ اکثر جواب یہی ہوتا ابا جی ختم ہوچکے ہیں۔

چاروں بھائیوں کو جمع کرکے کہتے کوئی پلاٹ وغیرہ دیکھو میرے پاس کچھ پیسے ہیں جب پلاٹ دیکھ کر انہیں اطلاع کرتے فرماتے وہ پیسے تو میں نے فلاں فلاں پر خرچ کردیے ہیں چلو آئندہ سہی، ان شاءاللہ۔

رشتہ دار اور اساتذہ پر خرچ کرنے کو فوقیت دیتے اگر کوئی ادھار لیتا تو اس کو رقم دے دیتے ساتھ تاریخ طے کرلیتے کہ وقت مقرر کرو کب تک دو گے۔ مقررہ وقت تک ادائیگی نہ ہوتی تو مہلت دے دیتے۔ ہم کہتے ابا جی اس طرح پیسے کم ہو رہے ہیں تو آگے سے  فرماتے: “لیکن میرے پیسے تو بڑھ رہے” ان کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہوتا کہ جس کا مفہوم ہے کہ جو آدمی قرض دے اسے روزانہ اتنا صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے اگر مدت مقرر پر ادا نہ ہوں تو دوہرا ثواب ملتا ہے۔

اس ضمن میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے والد محترم کے متعلق بتاتے کہ وہ بھی لوگوں کو قرض دیا کرتے تھے۔ مدت طے کرنے کے بعد وہ گواہ بھی بناتے تھے۔ فرماتے: یہ طریقہ سب سے عمدہ ہے۔

ایک دفعہ ایک عزیز نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے کچھ رقم قرض لی مدت طے ہوگئی۔ مقررہ وقت پر وہ ادائیگی کا بندوبست نہ کرسکے۔ ہم نے بتایا ابا جی وہ اس وجہ سے بڑے پریشان ہیں۔ یہ سننے کے بعد ابا جی نے  انہیں فون کیا کہنے لگے: میں نے سنا ہے اس وجہ سے آپ پریشان ہو ؟  وہ خاموش ہوگئے۔ کہنے لگے: “مولانا پریشان نہ ہوں دس سال بعد دے دینا نہ ہو تو تمہیں معاف کیے”۔

ان کی ڈائری پر بھی اسی طرح کی بات لکھی تھی بیٹوں کو وصیت کررکھی تھی کہ “فلاں کو اتنا قرضہ فلاں تاریخ تک دیا اگر واپس مل جائے تو صدقہ کردیں نہ ملے تو مطالبہ مت کریں”۔کئ دفعہ ایسا ہوتا کہ ویسے ہی کچھ رقم تیس چالیس ہزار جیب سے نکال دیتے کہ جاؤ طلبہ میں تقسیم کردو۔

جامعہ کا تعلیمی سال شروع ہوتا طالب علم گروپ بنا کر ان کے پاس آتے کہ کتابیں خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ انہیں پرچیاں لکھ لکھ کردیتے جاتے کہ میرے حساب سے کتابیں دے دیں۔ وہ حساب کئی دفعہ لاکھوں میں بن جاتا کتب کا یہ وہ حساب تھا جو ہمارے علم میں تھا اس کے علاوہ ابو مسلم بھائی جن کے پاس کتابوں کی زمہ داری تھی اور عبدالسلام بھائی جن کی دار الاندلس پر ذمہ داری تھی۔ ان کے ساتھ طلبہ پر خرچ کرنے کا الگ حساب تھا جو کم ہی پوچھتے تھے وہ خود بتا دیتے تو ٹھیک ورنہ اعراض فرمالیتے۔

ڈائری پر ایک الگ سے کھاتہ بنا رکھا تھا جس پر سرخی یہ تھی “وہ پیسے جو دے دیے لیکن واپس نہیں لینے ” اس طرح قرض دیتے کہ بعد میں بالکل مطالبہ نہ کرتے۔

ایک دفعہ بیٹوں سے کہنے لگے یار میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ لوگ بہنوں بیٹیوں کی زمین پر قبضہ کرلیتے ہیں وہ اللہ کی بندیاں اس وجہ سے مطالبہ نہیں کرتیں کہ کہیں باپ ،بھائی انہیں بلانا نہ چھوڑ دیں۔  فرمانے لگے: الحمد للہ میں نے اپنے بہنوں کا پورا پورا حصہ ادا کیا ہے ہمیں مخاطب کرکے کہا ہمیشہ بہنیں ہی بھائیوں کو اپنا حصہ معاف کرتی ہیں بھائی اس پر خوش ہوتے ہیں کہ میری بہن نے خود معاف کیا ہے ذرا ایک دفعہ ان کا مال ان کے حوالے کرو پھر دیکھو کیا وہ تمہیں معاف کرتی ہیں۔ پھر ہم سے کہنے لگے اگر تم کہو تو اپنی زمین بھی اپنی بہنوں کو نہ دے دوں۔۔۔؟ ہم نے کہا ابا جی جس طرح آپ خوش ہیں تو خاموش ہوگئے مزید کوئی بات نہ کی۔

ہمارے قریبی رشتہ داروں میں بھی ایسی صورتحال تھی کہ بھائیوں نے بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دیا تھا اس کے باجود صلہ رحمی والی صورت کم ہی تھی فرماتے میرا دل کرتا ہے کہ ان پر کچھ خرچ کرکے ان کی صلح کروا دوں۔

ہمارا گاؤں بھٹہ محبت جو ضلع اوکاڑہ میں واقع ہے۔ گاؤں سے کوئی فرد یا عزیز آتا ہمیں کمرے سے باہر نکال کر انہیں کچھ پیسے دے دیتے۔ جب کوئی گاؤں جانے لگتا تو پیسے پکڑا دیتے کہ اس میں سے فلاں فلاں کو اتنے اتنے پیسے دے دینا۔رشتہ داروں کا خیال کرتے۔

گاؤں کا حال احوال پوچھتے۔ گاؤں کی مسجد کے متعلق فکر رہتی تھی کہ وہاں نماز اور نمازیوں کی کیا صورتحال ہے؟ کتنی تعداد میں بچے مسجد میں پڑھنے آتے ہیں؟ شعبہ حفظ میں کتنے طلبہ ہیں؟ وہاں قاری صاحب کا بندوبست کرکے بھیجتے انتظامیہ اور قاری صاحب کی آپسی ناراضی کی وجہ سے معاملہ بگڑ جاتا تو قاری صاحب واپس آجاتے پھر بھیجتے کئی دفعہ پریشان ہو جاتے کہ قاری صاحب کے ساتھ اگر اچھا معاملہ رکھیں اور معقول تنخواہ دیں تو استاد کے بھاگنے کا سوا ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جب کسی استاد کو گاؤں یا کسی بھی جگہ بھیجتے، تو ذمہ داران سے کہتے مولوی صاحب! اس کی تنخواہ اچھی لگانی ہے اور سانس نکلنے کی جگہ بھی باقی رکھنی ہے اتنی ذمہ داری نہیں ڈال دینی چاہیے کہ وہ کوئی اور کام ہی نہ کرسکے۔

ایک دفعہ ہمارے رشتہ دار حاجی قاسم، حاجی حاکم اور حاجی ہاشم کی طرف سے دعوت آئی ہم نے جانے میں پس و پیش سے کام لیا تو ناراض ہوگئے کہنے لگے کہ ابھی میں زندہ ہوں تم لوگوں نے گاؤں جانا چھوڑ دیا ہے۔ بعد میں کیا کرو گے؟گاؤں چکر لگاتے رہا کرو اس سے  دعوت والا راستہ کھلا رہتا ہے۔صلہ رحمی اور تعلق قائم رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے اکثر یہ شعر پڑھا کرتے۔

ملاقاتیں ضروری ہیں اگر رشتہ نبھانا ہے
لگا کر چھوڑ دینے سے تو پودے سوکھ جاتے ہیں

والد محترم کو بارش بہت پسند تھی ۔بارش کا موسم ہوتا تو کمروں کے دروازے کھڑکیاں کھول دیتے۔ اپنی حیات کے آخری برسوں میں جب جیل میں تھے بارش ہوتی تو جیل کے صحن میں دو کرسیاں رکھوا دیتے۔ مجھے ساتھ بٹھا کر پارہ سناتے رہتے میں دیکھتا رہتا کہ بڑا لطف لے رہے ہیں۔ خوشی چہرے سے نظر آتی اس طرح کہ ہولے ہولے مسکراتے رہتے ساتھ پارہ سنانا جاری رکھتے، فرماتے: تمہیں کیا بتاؤں مجھے کتنا سواد آرہا ہے؟

ایک دفعہ بارش کے قطرے جسم پر پڑ رہے تھے۔ میں نے کہا اندر کمرے میں چلتے ہیں ۔کہا بیٹھے رہو پھر فرمانے لگے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بارش نازل ہوئی آپ نے جسم مبارک سے کپڑا ہٹا دیا پھر فرمایا یہ رب تعالیٰ کے پاس سے نئ نئ آئی ہے۔ کہا اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ محبوب کے پاس سے آنے والی چیز بھی محبوب ہوتی ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا ہٹا دیا تھا۔

میں نے پوچھا بارش میں دعا قبول ہونے کی بشارت ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ پہلے تو کہا کہ جو حکم آیا ہے بغیر علت کے  ماننا چاہیے پھر فرمانے لگے بارش کے دوران اللہ کی رحمت زوروں پر ہوتی ہے۔ اس لیے دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔

عمر بھٹوی بن حافط عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ