(باپ اپنے بیٹے کے لیے پہلا آئیڈیل ہوتا ہے۔ باپ سے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے،حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ علم و عمل کے اعلیٰ مقام پر فائز تو تھے ہی مگر انہوں  نے بطور والد بھی اپنے کردار اور عمل سے بیٹوں کی بہت تربیت کی، ان کو بطور والد کیسا پایا، اس سلسلے میں  اپنے تاثرات ان کے بیٹے  عمر بھٹوی حفظہ اللہ نے قلم بند کیے ہیں۔ یہ تاثرات انہی کے قلم سے قارئین کی نظر کیے جاتے ہیں۔ ادارہ)

حافظ عبد السلام صاحب کا یہ خاصہ تھا کہ اپنے لیے کبھی سوال نہیں کرتے تھے۔ نہ اپنی اولاد کے لیے پسند فرماتے ۔اس بارے میں اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے فرماتے کہ:  جب میں نے گوجرانوالہ کی ایک معروف مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا تو میری تنخواہ ڈیڑھ سو روپیہ مقرر ہوئی۔  بعد میں مسجد کے ذمہ دار میرے پاس آئے آکر کہنے لگے کہ ہم اتنے پیسے نہیں دے سکتے۔آپ کو  سو روپیہ دیا کریں گے ان کے جواب میں کہا ٹھیک ہے بعد میں وہ دینا بھی بند کردیا۔ سات مہینے تک مجھے تنخواہ نہیں دی میں نے بھی مطالبہ نہیں کیا۔ پھر ایک دن مولوی عبداللہ صاحب جنہوں نے مجھے جمعے کے لیے وہاں بھیجا تھا ان کے پوچھنے پر میں نے بتایا۔ انہوں نے مسجد کے زمہ داران کو بلا کر خوب سنائیں۔ کہ سات مہینے سے تم نے تنخواہ نہیں دی۔ اگے سے  کہنے لگے انہوں نے مانگی ہی نہیں۔ کہا کوئی خدا کا خوف کرو ایک بندہ مانگ نہیں رہا تم نے اس کا حق دینا ہی بند کردیا۔ مولوی عبداللہ صاحب کی نصیحت کے بعد پھر اللہ کے فضل سے وہ بڑا خیال کرتے۔
اسی طرح وہاں سے مولوی عبداللہ صاحب کے کہنے پر ایک اور مسجد میں ذمہ داری لگی لمبا عرصہ وہ جمعے کا کھانا وغیرہ بھی نہیں پوچھتے تھے میں نے بھی مطالبہ نہیں کیا ایک دن جمعہ پڑھا کر مسجد کے باہر لگی ٹونٹی سے پانی پی رہا تھا کہ ایک بزرگ نے دیکھا کہا اللہ کے بندو انہیں کھانا تو کھلا دیا کرو پھر انہوں نے مجھے جمعے کے بعد کھانا کھلانا شروع کیا۔

کچھ ساتھیوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔انہیں اپنا بیلی کہا کرتے ڈاکٹر سکندر حیات آف گوجرانولہ سے بڑی محبت تھی ڈاکٹر صاحب بڑے اصرار سے تحائف بھیجتے تو قبول فرما لیتے انہیں اپنا یار کہتے تھے ڈاکٹر محسن گھرکی مولوی عبدالجبار لاہور مولوی طیب صاحب مرالی والے، ڈاکٹر عتیق الرحمن شیخوپورہ، محترم ذکی الرحمن لکھوی اور حافظ سعید صاحب سے بڑی محبت تھی۔ فرماتے: حافظ سعید صاحب نے آج تک کوئی بات نہیں کی کہ میں نے اسے ٹال مٹول کام لیا ہو۔ یہی معاملہ میری طرف سے ہے حافظ سعید صاحب کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے کہ انہوں نے مجھے زیادہ سبق پڑھانے سے رخصت دی ہے اگر میں سارے سبق پڑھاتا تو لکھنے کا وقت نہ ملتا یہ ان کی مہربانی ہے کہ مجھے صرف صحیح بخاری کا سبق دیا ہے باقی فرصت دے دی ہے محترم ذکی الرحمن لکھوی صاحب کو اپنا لاڈلا شاگرد کہتے کہ اس نے میری بڑی خدمت کی ہے وہ بھی اچھے سے اچھا لیپ ٹاپ بہترین موبائل خرید کر دیتے کہ حافظ صاحب  اس سے مطالعہ کریں انہیں۔ والد صاحب انہیں  دعائیں دیتے۔  لیپ ٹاپ کی بڑی تعریف کرتے کہ ایک آدمی کروڑوں روپیہ لے کر نکلے تب بھی اتنی کتابیں جمع نہیں کرسکتا جتنی مکتبہ شاملہ میں موجود ہیں اس سلسلے میں عربوں کو دعا دیتے کہ اللہ نے ان سے بڑا کام لیا ہے لیپ ٹاپ پر مطالعہ کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے کہ اگر کوئی قیمتی چیز خواہ بھینس ہی کیوں نہ بیچنی پڑے وہ بیچ کر لیپ ٹاپ لے لو تب بھی نفعے کا سودا ہے۔ مفتی یوسف طیبی صاحب حفظہ اللہ کے متعلق فرماتے کہ انہوں نے مجھے مکتبہ شاملہ کا تعارف اور استعمال سکھایا ہے۔

ادھار سے بہت بچتے تھے فرماتے گوجرانولہ جامعہ محمدیہ میں تدریس شروع کی تب مالی حالات کوئی بہت عمدہ نہیں تھے کرایے پر رہتے دوکان سے کبھی کبھار ادھار لے لیتے کہا ایک دفعہ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نے نصیحت کی کہ ادھار سے بچ جاؤ اس سے بندہ بڑی مصیبت میں پھنس جاتا ہے کہا میں نے اس نصیحت کو پلے باندھ لیا پھر ساری زندگی ادھار نہیں لیا سوائے دو مرتبہ کے ایک دفعہ حج پر جاتے وقت گوجرانولہ کے حاجی عطاء اللہ صاحب سے دس ہزار روپیہ قرض لیا اور دوسری دفعہ جب مکان تعمیر کرنے لگے ،  دوبارہ انہیں سے قرض لیا۔ اس کے علاوہ کبھی قرض نہیں لیا۔ ہمیں بھی یہی نصیحت کرتے۔
فرماتے گوجرانولہ ابتداء میں میری سو روپیہ تنخواہ تھی اپنے والدین کو بھی اس میں سے دیتا گھر بھی خرچ دیتا لیکن ہمیشہ گوشت کھایا سبزی طبیعت کے موافق نہ تھی دوکان سے آدھ پاؤ گوشت آدھ پاؤ دودھ لاتا تو تمہاری ماں لڑ پڑتی کہ دوکان والے کیا کہیں گے میں کہتا جو کہیں گے مجھے کہیں گے یہ میرا مسئلہ ہے لیکن ادھار سے بچے رہے۔

ذکر کرتے کہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا ابا جی حافظ محمد ابو القاسم سے بہت گہرا تعلق تھا مجھ سے بھی بڑی شفقت سے پیش آتے ہر سال گوجرانولہ امتحان لینے کے لیے تشریف لاتے ۔جامعہ اسلامیہ کا امتحان بھی وہی لیتے کبھی کبھار ابا جی بھی ساتھ ہوتے کئی دفعہ مجھے ساتھ لے جاتے اچھے لڑکوں پر خاص نظر رکھتے انہیں پڑھنے کی ترغیب دلاتے تعاون بھی کرتے میں نے بہت سی کتابیں ان سے لے کر پڑھیں اس معاملے میں بڑے فیاض اور کھلے دل والے تھے عالم تو تھے ہی شعروں کا اچھا ذوق بھی رکھتے تھے میرے ذوق کو دیکھتے ہوئے مجھے جیبی سائز مرزا غالب کا دیوان لے کر دیا جو ہمیشہ پاس رہا۔

فرماتے کہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور ابا جی دونوں بزرگوں کی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ تھی ان کی تربیت کا اندازہ ان دو واقعات سے لگایا جاسکتا ہے

کہا جب میری شادی ہوئی ہم پانچ سات آدمی بارات بن کر گئے جب بس میں سوار ہوئے تو ایک ساتھی پیچھے رہ گیا ہم نے کافی انتظار کیا لیکن وہ نہ پہنچ سکا ہم لوگ سوار ہوکر نکل گئے وہ بعد میں پہنچے اور اڈے والوں سے پوچھا کہ یہاں سے کوئی بارات سوار ہوئی ہے انہوں نے بتایا بارات تو نہیں سوار ہوئی ہاں تبلیغی جماعت کے لوگ بس پر سوار ہوکر گئے ہیں۔

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے بیٹے احمد شاکر رحمہ اللہ کی شادی کا واقعہ یہ ہے ان کی بارات گوندلانوالہ جانی تھی میں بھی شامل تھا گوجرانولہ کے بس سٹینڈ سے بس پر سوار ہونا تھا ابھی بس کا انتظار کررہے تھے کہ بارات کو مانگنے والوں نے گھیر لیا لوگوں نے حافظ عطاء اللہ حنیف کی طرف بھیج دیا کہ یہ دلہا کے والد ہیں مولانا کہنے لگے اگر تم دولہا تلاش کر لو تو میں تمہیں ضرور انعام دوں گا اب وہ کبھی کسی کو دلہا بناتا کبھی کسی کو تھک ہار کر کہنے لگا انعام بے شک نہ دو مگر یہ تو بتادو کہ دلہا کون ہے۔

دو دفعہ سعودی عرب جانے کا ارادہ بنا جب مدینہ یونیورسٹی شروع ہوئی میرے بھائی اور دوست عبدالسلام کیلانی وہاں داخل ہو گئے مجھے خط لکھا کہ کاغذات بھیج دو داخلہ ہو جائے گا والد صاحب میرے جانے پر راضی نہیں تھے انہوں نے اس کا ذکر اپنے دوست مولا عطاء اللہ حنیف سے کیا انہوں نے کہا کہ تمہارے والد تمہارے جانے پر راضی نہیں ہیں اس لیے نہ جاؤ اللہ یہیں برکت دے گا پھر واقعی اللہ نے بڑی برکت دی ۔

دوسری دفعہ مجھے عمرے کا شوق ہوا پاس پیسے نہیں تھے میں نے اپنی ایک الماری فروخت کی چائنہ کی ایک سائکل فروخت کیا البدایہ والنہایہ فروخت کردی اور کچھ پیسے ادھار لے کر عمرے کی تیاری کر لی پاسپورٹ بنوا کر ٹکٹ خریدا ویزے کے لیے اسلام آباد گیا وہاں سے ویزا نہ لگا تو کراچی گیا اور دس بارہ دن رہ کر ویزا لگوا کر واپس آیا سیٹ پکی ہوگئی تو والدہ کے دل میں خیال آیا کہ اکیلا بیٹا ہے سعودیہ جا کر وہیں رہ جائے گا انہوں نے والد صاحب سے ذکر کیا والد صاحب نے دوبارہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی سے ذکر کیا انہوں نے کہا فی الحال رہ جاؤ اللہ برکت دے گا پھر اس سے کئی سال بعد والد صاحب کے ساتھ حج کے لیے گیا اس کے بعد بھی کئی سال جاتا رہا

جب میرا داخلہ مدینہ یونیورسٹی ہوا تو ہر سال عمرے پر آنے لگے۔ میرے ساتھ مل کر عمرہ کرتے ایک دفعہ ایڑھی میں تکلیف تھی اسی تکلیف کے ساتھ عمرہ کیا. صفا مروہ کی سعی کے دوران صفا پر بیٹھ کر لمبی دعا کی کہا جس طرح ہم باپ بیٹا اکٹھے ہیں اللہ تمہیں بھی تمہارے بچوں کے ساتھ عمرہ کروائے (آمین)
پھر جب تک وہ عمرہ اور حج کے دوران مکہ یا مدینہ رہتے میں جامعہ سے چھٹی لے کر ان کی خدمت میں رہتا جس پر بڑے خوش ہوتے حرمین میں نماز ادا کرتے کچھ دیر اذکار کرتے پھر ہوٹل میں آکر تفسیر اور شرح بخاری لکھتے رہتے۔ جامعہ کے طلبہ دعوت دیتے ان کے پاس ملنے چلے جاتے میں ساتھ ہوتا. جب فارغ ہوتے تو پارہ سنانا شروع کردیتے. ایک دفعہ ابن باز مسجد میں پارے کا دور کررہے تھے, جامعہ کے طلبہ ملاقات کے لیے آئے ان سے مل کر بڑے خوش ہوئے۔

ان کے شاگرد قاری ابراہیم بلوچ صاحب ریاض میں رہتے تھے. وہ ملنے کے لیے مکہ آجاتے تو گاڑی میں بٹھا کر ریاض لے جاتے. ایک دفعہ انہوں نے حکومت سے رخصت لے کر سعودیہ کے کئی علاقوں کی سیر کروائی۔

مدینہ پہنچنے کے ساتھ ہی کچھ ساتھیوں کا خاص طور پر پوچھتے، جن میں سرفہرست ابو تراب بھائی، عبدالباط فہیم صاحب زید حارث، فواد بھٹوی، حبیب بھٹوی اور مرکز طیبہ کے وہ طلبہ تھے جو ان دنوں مدینہ پڑھ رہے تھے پھر ان سے ملاقات کرکے خوش ہوتے۔

ہوٹل میں مقیم تھے ڈاکٹر فراز الحق کراچی سے تشریف لائے، باتوں باتوں میں مکتبہ شاملہ اور مسجد نبوی کے مکتبوں کا ذکر کیا، کہنے لگے عمر سے ہارڈ لے کر اس میں یہ کتب اور مکتبہ جات انسٹال کر دیں پاکستان آکر اس سے فائدہ اٹھاتے رہے۔

کئ دفعہ کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، کہتے مطالعہ کرکے بتاؤ تمہیں کیا سمجھ آتی ہے؟ میں کہتا مجھے سمجھ نہیں آئی کہتے “فیر تو مدینے اوں کی پڑھ کے آیا ایں؟” اور کھلکھلا کر ہنستے۔ بڑے بھائی عبداللہ نے نیا نیا ایم فل کیا تھا اس سے پوچھتے وہ بھی کئی دفعہ عذر کردیتا کہتے “اے وڈا ایم فل کیتی پھردا”۔ ساتھ کہتے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے اس سے دین کا کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن ڈگری برائے ڈگری نہیں ہونی چاہیے مقصد اللہ کے دین کی خدمت ہونا چاہیے۔

ابا جی جہاں والد تھے ہمارے وہاں  استاد بھی تھے اس لیے ان کی اطاعت کے نتیجے میں اللہ نے ہم چاروں بھائیوں کو بڑی برکت دی۔ان کی زندگی میں ہی چاروں بھائی جمعہ پڑھانے لگے گئے تھے۔ بڑے بھائی عبداللہ نے ان کے جیل میں بند ہونے کے بعد ان کی مسجد الفتح جہاں وہ جمعہ پڑھاتے تھے سنبھال لی تھی۔ اس پر بڑا خوش ہوتے جمعے کے بعد چاروں بھائیوں سے جمعے کے احوال دریافت کرتے اور مسجد کے زمہ داران کا حال بھی پوچھ لیتے۔

میں لاہور شاہ عالم مارکیٹ رحمن مسجد میں جمعہ پڑھا رہا تھا۔ مہینے میں ایک جمعہ فارغ ہوتا ایک دن بلا کر کہا کہ اب جس کا جو جمعہ فارغ ہو وہ ہمیں جیل میں جمعہ پڑھائے گا۔ میں جمعہ پڑھاتے وقت کچھ جلدی جلدی بول جاتا جس پر بڑے بھائی سمجھاتے رہتے جیل میں انہیں پہلا جمعہ پڑھایا۔ جمعے سے فارغ ہو کمرے سے باہر آگئے اور جیب میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو تین ہزار روپے تھے مجھے پکڑائے بات کرنے لگے تو آبدیدہ ہوگئے۔ بڑا قابو کرنے کے باوجود رو پڑے مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیسے تسلی دوں۔ جب کچھ سمجھ نہ آئی تو میں نے بانہوں میں لے لیا۔ کہنے لگے  میں رو نہیں رہا یہ تو خوشی کے آنسو ہیں پھر دل کی طرف اشارہ کرکے کہا “میرے پتر جمعہ پڑھایا میرا دل ٹھنڈا ہوگیا تین چار دفعہ یہ بات دہرائی “اس واقعے سے میرا حوصلہ بہت مضبوط ہوا ۔

چاروں بھائیوں کو جمع کرکے کئ دفعہ نصیحت فرماتے۔ اکٹھے رہنے کی تلقین کرتے کہ اس میں بڑی برکت ہے کہا میرا ایک دوست عمرے سے واپس آیا جب مجھے ملا تو اس نے بتایا کہ میں نے جو دعا سب سے زیادہ کی وہ یہ تھی یا اللہ میری اولاد کو اکٹھا رکھنا ان میں کوئی رنجش نہ ہو ۔کہتے اس کی مجھے اب سمجھ آئی ہے دو بھائی ہوتے ہیں ان کی بھی آپس میں نہیں بنتی ایک اس طرف منہ کرلیتا ہے دوسرا دوسری طرف،تم لوگ ایسا نہ کرنا۔

اپنی بہنوں سے بڑی محبت کرتے تھے ایک بہن زندگی میں ہی فوت ہوگئی تھی اس کا ذکر خیر کرتے رہتے اسے مِرگی والا مسئلہ تھا ساری زندگی اس کے علاج معالجے کی فکر میں مبتلا رہے وفات کے بعد فرماتے اسے تو اللہ نے ایک دورے کے بدلے ہی معاف فرما دیا ہوگا۔
ساری زندگی جب تک گوجرانولہ جمعہ پڑھاتے رہے۔ جمعے کے بعد دونوں بہنوں کے گھر ضرور چکر لگاتے کچھ دیر لیٹ جاتے پھر مریدکے آجاتے اس کے علاوہ بھی جب کبھی دل اداس ہوتا ان سے ملنے چلے جاتے ان کی طرف سے بھی محبت والا یہی معاملہ تھا۔
ایک دفعہ ایک ہمشیرہ بیمار ہوگئیں تو ایک لاکھ روپیہ صدقہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کی برکت سے اسے شفا عطا فرمائے گا۔
بھانجوں اور بھانجیوں سے بڑی محبت کرتے جب ان کا ذکر ہوتا تو خوش ہوجاتے ایک ایک کا نام لے کر ان کی خوبیاں بیان کرتے کہ اللہ نے میرے بھانجے بھانجیوں کو بھی دین پر لگایا ہے جب وہ ملنے آتے تو خود ایک ایک چیز نکال کر سامنے رکھتے ان کے آنے سے ہمارے گھر میں ایسی رونق قہقہے اور خوش گپیاں ہوتیں کہ بعد میں بھی کتنا ہی وقت خوش باش گزر جاتا فرماتے کسی کے بھانجے بھانجیاں اس طرح ہیں تو دکھاؤ۔جب طبیعت کچھ خراب ہوتی فورا چھوٹی ہمشیرہ کے بیٹے مکی کو فون کرتے کہ یہ مسئلہ ہے وہ اسی وقت گوجرانوالہ سے آکر ٹیسٹ کرتا دوائیوں کا مشورہ دیتا۔
پھوپھو کے بڑے بیٹے سعید طیب بھٹوی کو فون کردیتے کہ یہ مسئلہ آن پڑا ہے اس سے مشورہ کرتے اور کہتے یہ سیانا بندہ ہے۔

حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ بیٹے کی نظر میں (1)

عمر بھٹوی بن حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ