(باپ اپنے بیٹے کے لیے پہلا آئیڈیل ہوتا ہے۔ باپ سے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے،حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ علم و عمل کے اعلیٰ مقام پر فائز تو تھے ہی مگر انہوں  نے بطور والد بھی اپنے کردار اور عمل سے بیٹوں کی بہت تربیت کی، ان کو بطور والد کیسا پایا، اس سلسلے میں  اپنے تاثرات ان کے بیٹے  عمر بھٹوی حفظہ اللہ نے قلم بند کیے ہیں۔ یہ تاثرات انہی کے قلم سے قارئین کی نظر کیے جاتے ہیں۔ ادارہ)

عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ  کا ایک وصف کھری اور سچی بات کرنا تھا۔ ہم نے اپنی ہوش میں انہیں دانستہ کبھی جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا۔ ایک دفعہ کعب بن مالک والی حدیث پر مکمل جمعہ پڑھایا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو جب یہ حدیث بیان کی تو فرمایا جب سے میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
والد صاحب کہنے لگے الحمد للہ میری بھی یہی کوشش رہی ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اگر انجانے میں غلط بیانی ہوگئی ہو تو الگ بات ہے گھما پھرا کر بات کرنے کی بجائے دو ٹوک بات کردیتے جس سے کئی احباب ناراض ہو جاتے بعد میں بلا کر معذرت بھی کرلیتے کئی دفعہ کچھ کھلا پلا دیتے اور کہتے مولوی صاحب دل میں نہ رکھنا۔

ایک دفعہ مرکز کے ساتھی ابو ذر بھائی اپنے بھائی کے ہمراہ ملاقات کے لیے جیل میں آئے۔ (وہ اس سے پہلے بھی اکثر و بیشتر عصر کے بعد آجاتے تھے۔ ان کے سامنے گڑ جو وہ ہمیشہ تیار کرواتے بلکہ ان کا ایک شاگرد ضیاء الرحمن مرکز یرموک پتوکی انہیں باقاعدہ تیار کروا کے دیتا۔ جس میں کشمش اخروٹ بادام وغیرہ شامل ہوتے آگے رکھ دیتے ساتھ سکری کھجور رکھ دیتے خشک کھجور پسند فرماتے۔ اگر بچ جاتی تو شاپر میں ڈال کر ساتھ دیتے کہ یہ آپ کے لیے ہی ہے ) ساتھ ان کے بھائی تھے طبیعت اچھی نہیں تھی ملاقات سے معذرت کرلی بعد میں بڑے پریشان ہوگئے، کہ شاید وہ ناراض ہوگئے ہیں۔ پھر باقاعدہ ان کو ناشتے پر بلایا اور معذرت کی۔

آپ مرکز جامعہ الدعوہ الاسلامیہ کے بانی مدیر بھی تھے کئی دفعہ اساتذہ کو سخت لہجے میں ایک آدھ بات کہہ لیتے وفات سے کچھ دن پہلے تین ساتھیوں کو کچھ نصیحتیں کیں کچھ دن بعد کہنے لگے کہیں وہ ناراض نہ ہوگئے ہوں ان کے لیے دعوت ترتیب دیی ہم سے مشورہ کیا کہ انہیں کیا کھلانا چاہیے پھر خود ہی کہنے لگے جو خود کھاتا ہوں وہی کھلاؤں گای دو دن اپنے سالن سے کچھ علیحدہ کرکے جمع کرتے رہتے پھر ان کی دعوت کی اور پہلی تمام باتوں کو بھلانے اور دل صاف کرنے کا کہا۔

جامعہ میں طلبہ کے کھانے کے حوالے سے کئی دفعہ طبیعت شدید سخت ہوجاتی امیر مرکز کو بار بار کہتے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر محترم حافظ سعید صاحب کے پاس تشریف لے جاتے کہ ان کے کھانے کا بندوبست مزید بہتر کریں۔ اگر گوشت اسی کلو مقرر ہے تو پانچ کلو کم کیوں ہے؟ طالب علموں کی روٹی کچی کیوں رکھی جاتی ہے ؟
کتنے سال تک تو اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ روٹی میں خمیر شامل کرو تاکہ نرم ہو جائے۔فرماتے ان طالب علموں کا جامعہ میں نہ باپ ہے نہ ماں ہے جو مرضی کھلا دو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اس پر بڑے دلبرداشتہ ہوتے جب کوئی طالب علم شکایت کرتا کہ روٹی کچی ہے یا سالن میں مرچ نمک کم یا زیادہ ہے۔ تو فرماتے: ان کی خدمت کرو ان سے بڑھ کر خدمت کا مستحق کوئی نہیں ہے۔
جب چاول پکائے جاتے تو دیکھتے گوشت کی مقدار کتنی ڈالی گئی ہے۔ میوہ جات کی مقدار کیا ہے ،چاول باسمتی پکایا گیا ہے یا بیکار چاول طالب علموں کو کھلایا ہے۔ذمہ داران کو بلا کر پوچھ گچھ کرتے تو کئی دفعہ ساتھی ناراض ہو جاتے تو فرماتے مولوی صاحب ناراض ہونے کی بجائے مسئلہ حل کرو اگر کوئی بات کی پروا نہ کرتا اور اپنے فعل پر اصرار کرتا تو لاہور حافظ سعید صاحب کے پاس پہنچ کر شکایت کرتے۔ حافظ صاحب پھر ممکن مداوا کرتے۔

 

جب بھی اساتذہ اور قراء حضرات کی مجلس بلاتے تو اس بات پر زور دیتے کہ طلبہ کو مارنا نہیں ہے۔ کہتے میں نے ساری زندگی کے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ مار کا فائدہ کم ہی ہوتا ہے بلکہ طلبہ مدرسہ چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں  وہ تعلیم تو دور نماز سے بھی جاتے رہتے ہیں۔
بعض مدارس سے صرف اس وجہ سے استاد کی چھٹی کروا دی جو منع کرنے کے باوجود طلبہ کو مارنے سے باز نہیں آتے تھے۔مریدکے میں باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا کہ جس نے طالب علم کو مارا وہ اس جامعہ میں نہیں پڑھائے گا یہی وجہ تھی طلبہ کو کوئی بھی کچھ کہتا فورا وہ ابا جی کے پاس پہنچ جاتے اسے الگ سے حوصلہ دیتے استاد کو الگ بلا کر سمجھا دیتے۔

قرآن مجید سے تعلق اور محبت کا عجیب عالم تھا فرماتے میں نے درس نظامی کے بعد حفظ کیا تھا پھر پارے کا دور ہمیشہ رکھا۔جب گوجرانولہ تھا تو قاری طیب بھٹوی صاحب حفظہ اللہ جو ابا جی کے تایا زاد اور بڑے گہرے دوست بھی تھے کے ساتھ دور کرتا۔
ایک دفعہ دونوں نے قرآن پکا کرنا شروع کیا ان دنوں مسجد بلال میں رہتے تھے ہم سارا دن قرآن پڑھتے رہتے اس ضمن میں قاری طیب صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ سنایا کہ کچھ عرصہ ایسا ہوا کہ حافظ صاحب عصر کی نماز کے بعد غائب ہو جاتے میں تلاش کرتا تو نہ ملتے جس کمرے میں رہتے تھے اسے بھی باہر سے تالا لگا ہوتا میں بڑا پریشان کہ حافظ صاحب جاتے کہاں ہیں ایک دن میں نے کمرے سے کچھ سامان لینا تھا دیکھا حسب معمول تالا لگا تھا کمرے کی ایک کھڑکی محراب والی طرف کھلتی تھی میں وہاں سے اندر داخل ہوگیا دیکھا اندر بیٹھے پارہ یاد کررہے تھے۔ کہا میں اسی طرح تالا لگا کر کھڑکی سے اندر داخل ہوجاتا ہوں اب تک ایسے پندرہ پارے پکے کر لیے ہیں۔

حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کے ساتھ لمبا عرصہ قرآن کا دور  کرتے۔ فرماتے: ہم دونوں ایک دوسرے کو روزانہ پارہ سناتے۔ جب کوئی ایک سو جاتا تو دوسرا جگاتا نہیں تھا خود ہی اپنا پارہ مکمل کرلیتا۔ ایک رمضان ایسا بھی ہوا کہ میں اور حافظ عبدالمنان اپنی اپنی مسجد میں مصلے میں ایک سپارہ تراویح میں سنا کر واپس آتے پھر دونوں نوافل کے لیے کھڑے ہوجاتے دو رکعتوں کے اندر میں دس پارے پڑھتا پھر دو رکعتوں میں حافظ عبدالمنان صاحب رحمہ اللہ  دس پارے پڑھتے ۔

جب گوجرانولہ سے مرکز طیبہ مریدکے تدریس کے لیے آئے۔ یہاں بھی پارے کو روزانہ کا معمول رکھا۔ سولہ سترہ سال سے میرے ساتھ پارے کا دور کرتے آرہے تھے۔ اس دوران میرا داخلہ مدینہ یونیورسٹی ہوگیا تو بڑے بھائی عبداللہ کے ساتھ دور شروع کردیا مدینہ سے تخرج کے بعد منقطع سلسلہ دوبارہ قائم کرلیا ۔

فرمایا کرتے: میرے ابا جی کو بھی قرآن سے بڑی محبت تھی ہر وقت وہ قرآن پڑھتے رہتے تھے جب وہ مسجد یا مدرسے آتے تو گھر داخل ہونے سے پہلے ہی ان کے آنے کا پتہ چل جاتا تھا کہ والد آرہے ہیں ۔قرآن کی گنگناہٹ کی آواز ان کے آنے کی خبر دے دیتی ۔تہجد ہمیشہ کا معمول تھا دن کو بھی قرآن پڑھتے رہتے ۔گھر میں کچھ ہوتا رہے ہمیشہ قرآن پڑھتے رہتے یا مطالعہ کرتے رہتے والدہ کبھی میری، کبھی بہنوں کی شکایت کرتیں کبھی کسی رشتہ دار کی زیادتی پر فریاد کرتیں سنی ان سنی کرکے قرآن پڑھتے رہتے ۔والدہ کے زود رنج ہونے کے باوجود تحمل اور صبر کا مظاہرہ کرتے۔ اس ضمن میں ان جیسا شخص کوئی نہیں دیکھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مصداق تھے خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی۔

حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ بیٹے کی نظر میں

بتاتے کہ میرے والد تلاوت قرآن کے علاوہ بھی اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے میری ایک ہمشیرہ میمونہ کی ایک ٹانگ بچپن میں ہی سوکھ گئی تھی۔ بیساکھی کی مدد سے چلتی تھی۔ اللہ کی طرف سے ایسی آزمائش آئی کہ دوسری ٹانگ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ۔والد نے ان کے لیے ریڑھا بنوا دیا۔ ہمارے لیے اس کو لیے پھرنا سخت مشکل تھا۔ والد صاحب نے چودہ پندرہ دن اکتالیس دفعہ سورہ فاتحہ پڑھ کر پانی دم کرکے پلایا تو ہمشیرہ ایک ٹانگ پر کھڑی ہونے کے قابل ہوگئی اور دوبارہ بیساکھی کی مدد سے چلنے لگی ۔وفات کے وقت فالج ہوگیا بات نہیں کرسکتے تھے لیکن ذکر کرتے رہتے میں نے منہ کے قریب کان لگا کر سنا تو سورہ یوسف پڑھ رہے فرماتے میں نے بھی کئی سال سورہ یوسف کو معمول رکھا روزانہ ایک دفعہ پڑھ لیتا تھا۔

ابا جی کی طبیعت بھی جب خراب ہوتی تو والدہ ابا جی کے لیے اکتالیس دفعہ سورہ فاتحہ پڑھ کر پانی دم کردیتیں اللہ کے فضل سے شفا ہوجاتی۔کئی دفعہ بڑے بھائی عبدالرحمن ،عبداللہ پانی دم کرکے کرسی کے پاس بوتل بھر کر رکھ دیتے جب پیاس لگتی دم کیا ہوا پانی پی لیتے فرماتے اس سے مجھ بہت فائدہ ہوتا ہے۔

ہمیشہ ایک پارہ سنتے ایک سناتے ۔ایک سال پہلے پچھلے رمضان کے بعد کہنے لگے اگر تم ساتھ دو تو تین پارے سنا لیا کروں اپنا پارہ خود پڑھ لیا کرو میں نے حامی بھر لی پھر پورا سال تین پارے پڑھتے رہے جب سال مکمل ہوا تو کہنے لگے کہ میرا ایک بھی ناغہ نہیں ہوا ۔

ایک دفعہ آنکھ کا آپریشن تھا سرگودھا آپریشن ہوا ڈاکٹر نے آرام کا کہا وہاں سے چھٹی کے بعد اپنے دوست اور بھائی ذکی الرحمان لکھوی حفظہ اللہ سے ملنے تشریف لے گئے واپسی پر نو پارے پڑھ دیے کہ یہ پچھلے دو دن کا ناغہ بھی پورا ہوگیا ۔اس کے علاؤہ بھی لوگ اکثر جیل میں ملاقات کے لیے تشریف لاتے تو پارہ رہ جاتا اگلے دن چھ پارے پڑھتے سال کا اکثر حصہ ایسے ہی رہا ۔
پارہ سنتے وقت کی دفعہ میں سو جاتا کئ دفعہ ٹہوکا مار کر جگا دیتے اکثر بغیر جگائے اپنی منزل پوری کرلیتے

اگر کہیں سے مشابہ لگتا میں بتاتا ایسے نہیں ہے ایک دو دفعہ درست کرنے کی کوشش کرتے میں انکار میں گردن ہلاتا تو مصنوعی غصے سے اونچی آواز سے کہتے ” ہور کی اے”

جب قرآن ختم ہوتا تو چاروں بھائیوں اور بہن کی دعوت کرتے دونوں ماؤں کو بھی شریک کرلیتے جو موجود نہ ہوتا اس کا حصہ نکال کر علیحدہ رکھ دیتے پھر یہ ذمہ داری ہم پر ڈال دی کہ جب قرآن ختم ہوگا تو ایک بھائی باقی سب کی دعوت کیا کرے گا کچھ دیر یہ سلسلہ رہا پھر کہنے لگے کہ خود کھانے کی بجائے اگر سارے بیٹے بہوئیں بچے وغیرہ بھی شامل کرلیے جائیں تو بڑی خیر اور برکت والی بات ہے جو مختصر دعوت پہلے دس دن کے بعد ہوتی تھی وہ ایک مہینے کے بعد مقرر کردی جس کے پیسے اپنے پاس سے دیتے تین دعوتیں ہوئیں چوتھی دعوت کی تاریخ طے تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دعوت پر بلا لیا ۔       ان شاءاللہ

اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجتہ فی المھدیین واجمعنا فی جنات النعیم

عمر بھٹوی بن حافط عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ