حافظ محمد سعید کو رہا کیا جائے!

بھارتی جارحیت اب آپے سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ مودی موذی اور مہلک بن چکا ہے۔ پاکستان پر میزائل حملے کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت نے کشمیر کے محاذ کو بالکل ٹھنڈا کر دیا ہے، کشمیر میں مجاہدین کے ہم نوا اور معاون پروفیسر حافظ محمد سعید کو مسلسل نظر بند کر دیا گیا، تا کہ کشمیر کے مسئلے پر ایک توانا آواز کے لب خاموش کر دیے جائیں، جب کشمیر کے محاذ سے روگردانی کی گئی تو بھارتی بدمعاشی فقط بلوچستان تک محدود نہیں رہی بلکہ اب براہِ راست پاکستان پر میزائل حملے تک پھیل چکی ہے۔
اظہارِ اسلوب کے برق رفتار آلات، اسباب اور ذرائع رکھنے والی، جان داروں کے خلیوں کے اندر تک گُھس کر ان کی ماہیت، ساخت اور اجزائے ترکیبی تک کو کھوج لینے والی یہ دنیا بھارتی جارحیت پر تماشائی بنی ہوئی ہے، محض رسمی بیانات دیے جا رہے ہیں۔ عالمی امن کے داعیوں کی بصارت اور سماعت سے صداقت اور دیانت کیوں بے دخل کر دی گئیں؟ اِس کی فہمایش میں اتنی گنجایش کون سے جذبے کے باعث مفقود ہو کر رہ گئی؟ اب بھارت کے دہشت گرد خمیر اور بدخواہ ضمیر کو برداشت کرنا کارِ محال ہو چکا ہے۔ اِن تمہیدی کلمات کا مقصود قطعاً یہ نہیں ہے کہ ہمیں بھارت سے لڑنے کے لیے” کسی ایرے غیرے، کسی نتھو خیرے“ کے دوچار” مٹھڑے بول “ اور بیساکھیوں کے سہارے کی ضرورت ہے۔ نہیں، الحمدللہ! ہم اکیلے ہی بھارت کو ایسا سبق سکھا دینے کی مکمّل آب وتاب رکھتے ہیں کہ آہ وفغاں کا ہر منظر، سسکیوں اور ہچکیوں کا ہر سماں بھارت کے گلی کوچوں میں بپا کر دیا جائے۔ اگرچہ ابھی تک پاکستان کی جانب سے تحمل کا ایسا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو عوام کو مسلسل اضطراب اور بے کلی میں مبتلا کیے جا رہا ہے، پاکستانی عوام پاک فوج کے ساتھ جس محبت اور عقیدت کے ساتھ اظہار یک جہتی کر رہے ہیں، وہ ہمیں من حیث القوم ہماری اجتماعیت اور یہ جہتی کی عمدہ مثال ہے۔ بھارت سے جب تک بدلا نہیں لیا جاتا یہ بے سکونی سوہانِ روح بنتی جائے گی۔ بھارت نے بدمعاشی میں پہل کی ہے اور ہماری فوج بھارت سے بدلا لینے کے عزم کا مکمل اظہار بھی کر چکی ہے۔
اسی مسلسل تحمل کا شاخسانہ ہے کہ اعلا تہذیب کے دائرے میں پلنے والی قوّتیں، تحمّل، بردباری اور قوّتِ برداشت کا سبق ازبر کروانے والی اِس جدید دنیا کے احساسات کے کواڑ مسلمانوں کے متعلّق مکمّل طور پر مقفّل ہو چکے ہیں؟ کچھ عرصہ قبل فلپائن کے صدر” رودریگودوتیرتے“ نے ہولوکاسٹ کے متعلق محض چند الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ یہ الفاظ یہودی دنیا پر برقِ تپاں بن کر گرے اور دنیا بھر کے یہودیوں میں ایک بھونچال سا آ گیا تھا۔ ہولوکاسٹ پر نقد وجرح کا ایک شبد بھی یہودیوں کی طبع نازک پر کوہِ گراں بن کر گرتا ہے اور اس کی تلافی کے لیے ساری صلاحیتیں کھپا دی جاتی ہیں۔ عالمی یہودی کانگریس کے صدر” رونلڈ ایس لارڈ“ نے فلپائن کے صدر کو واضح پیغام دیا تھا کہ وہ معافی مانگے۔ امریکا میں موجود یہودی تنظیم” ایٹی ڈیفی میشن لیگ “ بھی ان حروفِ طعن پر مشتعل ہو گئی تھی، خود ان کے اپنے تحمل کی حالت تنی ابتر ہے کہ ہولوکاسٹ پر ایک جملہ تک برداشت نہیں کر سکتے۔ اِس جدید دنیا کی یہ عجیب کرشمہ سازی ہے کہ اِس کے کٹیلے نینوں کی بصارت کے کسی زاویے اور رسیلے ہونٹوں کی حرکات وسکنات کے کسی اتار چڑھاﺅ میں اہلِ کشمیر کے لیے التفات کے اظہار کا کوئی شگوفہ کِھلتا ہے نہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے نرماہٹ کا کوئی مادہ پیدا ہوتا ہے۔ بھارت نے ساکنانِ کشمیر کے جسم چھید ڈالے، اُن کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں، اُن پر ہمہ قسم کی قدغنیں عائد کر دیں مگر امتدادِ زمانہ، نیرنگیِ دوراں اور ماہ وسال کے کسی ایک حصّے میں دنیا نے اُن کے درد کا درماں کرنے کے لیے اُن کی سوچ اور فکر کے ساتھ ہم آہنگی اور مزاج کے ساتھ امتزاج کی بھی جسارت نہ کی۔ سیماب ظفر کے دو نہایت عمدہ شعر ہیں۔
برہا کو گود میں بھرتے ہیں، آغوش میں کرب سموتے ہیں
ہم ہجر کی شب کے ریشوں میں تری روشن یاد پروتے ہیں
گُھن کھا جاتا ہے خوشبو کے ریشم میں لپٹی ہر خواہش
ہم روشن آنکھوں والوں کے سب خواب شکستہ ہوتے ہیں
حیرت اس بات پر ہے کہ آج دہشت گردی کی تعریف کو بھی کسی تجریدی آرٹ کی لکیروں کی طرح دشوار بنا دیا گیا ہے۔ آج بھارت دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کا نام لے کر پاکستان کی سالمیت اچک لینا چاہتا ہے،۔ عالمی طاقتوں کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو شخص خود دہشت گردی کا اعتراف کرے اسے امن وشانتی کا سفیر جب کہ حافظ محمد سعید جیسا محب وطن شخص جو امن و آشتی کا پیام عام کرے اُسے دہشت گرد سمجھ لیا جاتا ہے۔ مودی کہتا رہا ہے کہ” ہم نے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کیا تھا “ کیا یہ دہشت گردی کا اعتراف نہیں تھا؟ مودی نے احمد آباد اور گجرات کے مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا اور کہا کہ” آیندہ بھی ایسا کرنے میں مجھے دیر نہیں لگے گی“ کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی؟ بھارت کے پردھان منتری نے مانا کہ” بلوچستان میں اُس کے رابطے دہشت گردوں سے ہیں“ کیا قیامِ امن کے چارہ سازوں کے نزدیک یہ دہشت گردی نہیں؟ کیا مودی نے بھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملے کا طومار پاکستان پر باندھ کر ایک ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کو سرجیکل سٹرائیک کی دھمکی نہیں دی؟ کیا امن کی بانسری بجانے والے گویّوں کے نزدیک یہ دہشت گردی نہیں؟ اُس نے کہا” میں پاکستان کو تنہا کر دوں گا“ پھر کہا” میں دریاﺅں کا پانی بند کر دوں گا کیوں کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہ سکتے“ کیا یہ دہشت گردی اور جارحیت نہیں تھی؟ کیا بابری مسجد کو شہید کر دینا دہشت گردی نہیں؟ کیا سمجھوتا ایکسپریس اور مالیگاﺅں کے واقعات دہشت گردی کے قبیل سے تعلّق نہیں رکھتے؟ سری لنکا میں تامل باغی بھارتی ریاست کی زیرِ تربیت اور پشت پناہی سے کام کرتے رہے، کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی؟ اور اب پاکستان پر میزائل حملے، دہشت گردی نہیں ہے؟ کیا ہم ان بھارتی میزائل حملوں کو بھول جائیں گے؟ کیا مقبوضہ کشمیر کے لوگ اپنے ایک لاکھ سے زائد شہدا کے خون کو اتنی آسانی کے ساتھ بھول سکتے ہیں؟ کیا کشمیر کے چناروں، دریاﺅں، ندی نالوں، چشموں اور جِھیلوں میں کشمیر کے اہلِ جنوں کا خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہ رہے؟ مودی یاد رکھے کہ جب مقبوضہ کشمیر میں مظلوموں کا خون اور پانی ایک ساتھ بہ سکتے ہیں تو بھارتی جارحیت کے جواب میں بھارتی فوج کا خون اور دریاﺅں کا پانی بھی ایک ساتھ بہنے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔اسلم گورداس پوری نے یہ انتہائی معتبر شعر کہا ہے۔
زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں، جس کے لیے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں
باریک بینی کی سطحِ مرتفع پر مسند نشینی کی دعوے دار اِس دنیا کی اہلِ کشمیر کے خوابوں کی بھٹکتی تعبیروں، تکمیل کی جانب ہمکتی اور سرگرداں ان کی خواہشوں اور کاوشوں اور ان کے جسم وجاں پر بھارتی استبداد کے باعث الم ناک حقیقتوں سے صرفِ نظر برتنے کی محض ایک ہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہیں۔ تعصّب کی گھٹا ٹوپ گھٹائیں اتنی کالی اور سیاہ ہو جائیں تو دنیا میں امن کی فاختاؤں کو کچھ دِکھائی اور سُجھائی نہیں دے سکے گا۔ جنوبی ایشیا کے اِس خطّے پر مقبوضہ کشمیر ایک رِستا ہوا گھاﺅ ہے اور اِس گھاﺅ کے باعث اہلِ کشمیر کے سینوں میں بھارت کے خلاف نفرت کے الاؤ دہک رہے ہیں۔ مصائب و آلام میں گِھرے کشمیریوں کو ایک طویل عرصہ بیت چکا۔ پاکستان کی طرف دیکھتے دیکھتے اہلِ کشمیر کی آنکھیں پتھرا چکیں۔
کشمیر کا بچّہ بچّہ آزادی پر مَر مٹنا تو گوارا کر سکتا ہے مگر بھارتی تسلّط کَل قبول تھا نہ آج تسلیم ہے۔ سو، پاکستان پر موجودہ حملوں کا بھی اصل سبب مقبوضہ کشمیر ہی ہے، دنیا کشمیریوں کے درد کا ادراک کب کرے گی؟ اگر دنیا نے اس انتہائی حسّاس مسئلے میں غفلت کا مظاہرہ کیا تو پھر یہ یاد رکھے کہ مودی اس دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد بن سکتا ہے۔ اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارتی میزائل حملوں کا جواب میزائل حملوں سے دیا جائے، بجرنگ دَل اور شیوسینا کے ٹھکانوں پر اسی طرح میزائل مارے جائیں جس طرح بہاول پور سمیت دیگر شہروں پر میزائل مارے گئے ہیں اور حافظ محمد سعید وہ شخص ہے، جس سے بھارت سب سے زیادہ خوف زدہ ہے، اسے فوراً رہا کیا جائے۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: یہ کس قدر بد نصیب لوگ ہیں