ہمارے شیخ،مربی،مشفق استاد حضرت مولانا حافظ شفیق الرحمان لکھوی رحمہ اللہ ایک بلند پایہ،عالی کردار،تہجد گزار اور عابد و زاہد عالم دین تھے
“خاندانی پس منظر ”
آپ مصلح پنجاب مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی کے نواسے،محدث ہند مولانا عبد القادر لکھوی کے پوتے اور استاد پنجاب مولانا عطاء اللہ لکھوی کے صاحبزادہ گرامی تھے،مشہور سیاستدان مولانا معین الدین لکھوی آپ کے پھوپھی زاد اور کمانڈر ذکی الرحمان لکھوی آپ کے بھتیجے ہیں
آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے:شفیق الرحمان بن عطاء اللہ بن عبد القادر بن محمد شریف بن بارک اللہ بن احمد بن محمد امین بن عالم شاہ بن ابو داود ڈھنگ شاہ
علماء لکھویہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ کے توسط سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے،واللہ اعلم
“ولادت ”
حافظ شفیق الرحمان لکھوی 1924ء میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے
“ہجرت ”
1947ء میں تقسیم ملک کے وقت آپ نے اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے چک نمبر 18ون ایل رینالہ خورد ضلع اوکاڑہ تشریف لے آئے اور اسی کو اپنا مسکن بنایا
“تعلیم ”
آپ نے حفظ قرآن مجید کی سعادت مولانا عبید اللہ سے حاصل کی جو موضع بیٹو قدیم ضلع فیروز پور میں رہتے تھے دینیات کی تعلیم کا آغاز اپنے خاندانی مدرسہ جامعہ محمدیہ لکھوکے سے کیا پھر مختلف مقامات پر تشریف لے گئے جن میں دار العلوم موضع پٹی،مدرسہ غزنویہ امرتسر،دار العلوم تقویہ الاسلام لاھور،جامعہ محمدیہ اوکاڑہ،دار الحدیث ملتان اور جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ شامل ہیں صحیح البخاری کی تکمیل جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں شیخ العرب و العجم حافظ محمد گوندلوی سے کی
“تدریس ”
مروجہ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد تدریس میں مشغول ہو گئے ابتدائی نو سال جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں تدریس کی پھر 1961ء سے لیکر وفات سے چند سال قبل تک جامعہ ابی ہریرہ رینالہ خورد میں پڑھاتے رہے
آپ کا تدریسی سفر کم و بیش ساٹھ سالوں پر محیط ہے یعنی آپ نے ساری زندگی خدمت دین میں گزاری پہلے بیس پچیس سال تعلیم حاصل کرتے رہے بعدازاں تدریس سے وابستہ رہے
راقم کو آپ سے ترجمہ قرآن مجید،مشکاہ المصابيح،صرف میر ،نحو میر ،علم الصیغہ وغیرہ کے علاوہ نورانی قاعدہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے
“اوصاف ”
آپ امام الصرف و النحو تھے،میں نے آپ سے بڑا عابد و زاہد انسان نہیں دیکھا،آپ نمونہ سلف تھے،اللہ اور اس کے رسول کے سچے محب،متبع سنت،علماء و طلباء کے خیر خواہ،راہ حق میں اپنا مال خرچ کرنے والے،خلاف شرع کام دیکھ کر جلال میں آجانے والے،دشمنان دین کے لئے ننگی تلوار تھے
“آزمائش ”
حیات مستعار کے آخری سالوں میں پے در پے آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا پہلے جوان سالہ بیٹے مولانا خلیق الرحمان لکھوی اچانک وفات پاگئے ،بوڑھے باپ کو سعادت مند اور اعلی تعلیم یافتہ جوان بیٹے کی ناگہانی وفات سے جو صدمہ پہنچا اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد رفیقہ حیات بھی جدائی دے گئیں ان پے در پے صدمات نے آپ کی کمر توڑ کر رکھ دی پیرانہ سالی اور اوپر سے یہ صدمات نتیجہ یہ ہوا کہ شدید نسیان طاری ہو گیا اور پھر تھوڑے ہی عرصے کے اندر اندر یاد داشت مکمل طور پر جاتی رہی ،آپ صاحب فراش ہوگئے
“وفات ”
آخر وہ وقت بھی آگیا جس میں لمحہ بھر کی تاخیر و تعجیل نہیں ہوسکتی چنانچہ 27 مئی 2014ء کو نوے سال کی عمر پاکر یہ عالم ربانی اس دار فانی سے کوچ کر گئے انا للہ وانا الیہ راجعون
نماز جنازہ میں علماء طلباء اور اہل علاقہ کا جم غفیر تھا پہلی نماز جنازہ ابو تقی حفیظ الرحمان لکھوی نے اور دوسری حفظ الرحمان لکھوی نے پڑھائی اور 18 چک کے قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناتك يارب العالمين
نوٹ:استاد محترم پر راقم کا تفصیلی مضمون دوماہی مجلہ نور الحدیث شمارہ نمبر 46 میں شائع ہوگا ان شاء اللہ

(کتبہ محمد ارشد کمال )