سوال (2600)
اسلام میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کرنا صحیح ہے؟
جواب
ہیئر ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے دو باتیں یاد رکھیں۔
(1) : اگر ہیئر ٹرانسپلانٹ سے مراد وِگ لگانا ہے تو یہ باالاتفاق حرام ہے۔
(2) : باقی اگر ایسے بال لگائے جاتے ہیں، جو بڑھتے ہیں، اگتے ہیں، تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ معاملات میں ہر چیز جائز ہے، جب تک اس کی حرمت کی دلیل نہ آئے، اور اس کے حرام ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
سوال: ہیئر ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے رہنمائی کریں۔
جواب: لیکن میں اپنے محدود علم کے مطابق اس کا جواب تحریر کر رہا ہوں، ہیئر ٹرانسپلانٹ کا عمل یہ ہے کہ مریض کے اپنے جسم سے (عموماً سر یا جسم کے کسی حصے سے) بال لے کر گنجے یا کمزور حصے میں لگا دیے جاتے ہیں۔ یہ دوسروں کے بال نہیں ہوتے بلکہ اپنے ہی بال ہوتے ہیں ، شریعتِ اسلامیہ کا اصول یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں بلا ضرورت تبدیلی کرنا حرام ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ﴾ (النساء: 119)
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں، گودوانے والیوں، حسن کے لیے دانتوں میں فاصلہ ڈالنے والیوں اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔” (صحیح بخاری: 5931، صحیح مسلم: 2125)
لیکن اگر یہ تبدیلی عیب دور کرنے کے لیے ہو تو جائز ہے۔
جیسا کہ نبی ﷺ کے زمانے میں ایک شخص جس کی ناک کٹ گئی تھی، آپ ﷺ نے اسے سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا۔ (سنن ابی داؤد: 4232)
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ: “اگر کوئی عمل علاج اور عیب دور کرنے کے لیے ہو، نہ کہ حسن و آرائش کے لیے، تو یہ اللہ کی تخلیق میں ناجائز تبدیلی کے حکم میں داخل نہیں ہوتا۔”
(سلسلة الهدى والنور، فتاویٰ البانی)
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اگر علاج کے لیے ہیئر ٹرانسپلانٹ کیا جائے، اور اپنے ہی جسم سے بال لیے جائیں، تو یہ جائز ہے۔”
(مجموع فتاویٰ و مقالات ابن باز: 10/60)
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
“اگر کوئی مرض یا عیب ہو، تو اس کی اصلاح کے لیے جسمانی تبدیلی جائز ہے، اس میں ہیئر ٹرانسپلانٹ بھی شامل ہے۔”
(المنتقى من فتاوى الفوزان)
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ