سوال (653)
بحالت حیض طلاق کے وقوع یا عدم وقوع کی وضاحت فرمادیں ۔
جواب
حالت حیض میں طلاق راجح قول کے مطابق واقع ہو جاتی ہے ، اس کی صراحت صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے ۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
حالت حیض میں طلاق کے بارے میں صحیح مسلم و صحیح البخاری کی نص آگئی ہے ، اس لیے یہ بات اقرب الی الصواب ہے کہ ایسے حالات میں طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حیض کی حالت میں طلاق دینا غیر شرعی ہے، لیکن یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تھی (صحیح البخاری:5251) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقاعدہ طلاق شمار کیا تھا۔ (مسند الطیالسی:68، سنن الدارقطنی:3867)
جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا بیان بھی ثابت ہے:
“حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ”. [صحيح البخاري:5253]
’ میری حیض میں دی گئی یہ طلاق شمار کی گئی تھی‘۔
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الطلاق يقع فى الحيض عند جماعة العلماء، وإن كان عندهم مكروهًا غير سنة، ولا يخالف الجماعة فى ذلك إلا طائفة من أهل البدع لا يعتد بخلافها، فقالوا: لا يقع الطلاق فى الحيض ولا فى طهر قد جامع فيه، وهذا قول أهل الظاهر، وهو شذوذ لم يعرج عليه العلماء؛ لأن ابن عمر الذى عرضت له القصة احتسب بتلك التطليقة، وأفتى بذلك». [شرح صحيح البخاري له: 7/ 384]
یعنی حیض میں طلاق دینا اگرچہ مکروہ اور خلاف سنت ہے، لیکن تمام اہل سنت کا حیض میں دی گئی طلاق کے وقوع پر اتفاق ہے۔ سوائے چند اہل بدعت اور اہل ظاہر کہ وہ اس کے وقوع کے قائل نہیں، حالانکہ یہ شاذ موقف ہے، جس پر اہل علم نے کوئی توجہ نہیں دی، کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جن کے ساتھ خود یہ واقعہ پیش آیا، انہوں نے اس کو طلاق شمار کیا تھا اور وہ اس کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ