سوال (670)

حیض کے بارے میں بتائیں کہ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت کتنی ہے اور اگر حیض کے دنوں کے بعد بھی بلیڈنگ ہو رہی ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا اس دوران نماز روزہ یا مجامعت کی جا سکتی ہے ؟

جواب

یہ مسئلہ مشکل ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے ، شریعت نے دو الفاظ میں یہ بات نہیں کی ہے کہ کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت یہ ہے ، ماہانہ ایام یہ ہیں ، بلکہ اس میں آب و ہوا اور خاندانی اثر ہوتا ہے یا جو خاندان کی عورتوں کے ساتھ مسئلہ تھا ماں ، نانی وغیرہ پھر وہ منتقل ہوتا ہے ، ایسے بھی ہوتا ہے ، تو خلاصہ یہ ہے کہ حدبندی نہیں ہے ، اس میں قرائن دیکھے جا سکتے ہیں ، زیادہ تر عورتوں کی بات رکھی جاتی ہے ، جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ عورتیں اس بات کو زیادہ سمجھتی ہیں ، کم و زیادہ دنوں کی کوئی حدبندی نہیں ہے ، بلکہ جو شروع سے دن چل رہے تھے اس پر اکتفاء کرنا چاہیے مثلاً : جب سے بالغ کوئی سات یا پانچ دن ایام حیض کے تھے ، انہیں دنوں کو شمار کریں باقی کو استحاضہ میں ڈال دیں ، یعنی ٹائیم پورا ہونے کے بعد غسل کرلیں ۔
استحاضہ والی عورت نماز بھی ہڑھ سکتی ہے ، اور شوہر اس سے قریب جا سکتا ہے ، اگر اس کا دل آمادہ ہوتا ہے ، یا پھر خون کے رنگت اور مہک سے فرق کرے کیونکہ حیض کا خون الگ ہوتا ہے ، اسی طرح فیصلہ کرے کے آنے والا خون کیا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

لا حد لأقله ولا لأكثره على الراجح ما كان الدم جاريا فهو حيض العبرة بالتمييز بین دم الحيض و غير من الدماء . للشيخ ابن عثيمين رحمه الله رسالة مختصرة في هذا الموضوع “رسالة في الدماء الطبيعية للنساء”

فضیلۃ الباحث الشیخ داؤد اسماعیل حفظہ اللہ