سوال (5890)

اس حدیث اور حجر بن عدی کے حوالے سے تفصیل درکار ہے؟
محمد بن سیرین فرماتے ہیں: زیاد نے خطبہ لمبا کر دیا تو حضرت حجر بن عدی نے کہا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ لیکن زیاد نے اپنا خطبہ جاری رکھا، حضرت حجر نے دوبارہ کہا کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے اور ساتھ اپنا ہاتھ زمین پر مارا، ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے بھی ہاتھ زمین پر مارے۔ زیاد منبر سے نیچے اترا اور نماز پڑھا دی، اور حضرت حجر کے بارے میں حضرت معاویہ کی جانب خط لکھا، حضرت معاویہ نے جوابی مکتوب میں لکھا کہ ان کو میرے پاس بھیج دو، زیاد نے ان کو حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا، جب حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ کے پاس پہنچے، تو کہا: السلام علیک یا امیر المومنین۔ ساتھ ہی فرمایا: اور امیر المومنین تو میں خود ہوں۔ میں نہ تجھ سے کوئی بات کروں گا اور نہ تیری سنوں گا، حضرت معاویہ نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ جب ان کو قتل کے لئے لے کر جا رہے تھے تو انہوں نے نماز پڑھنے کے لئے کچھ دیر مہلت کا مطالبہ کیا، ان کو مہلت دی گئی، آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر فرمایا: میری بیڑیاں مجھ سے نہ اتارنا اور نہ ہی میرے جسم سے میرا خون دھونا، مجھے میرے انہی کپڑوں میں کفن دینا، کیونکہ (کل قیامت کے دن میرا تمہارے ساتھ) جھگڑا ہو گا۔ راوی کہتے ہیں: اس کے بعد ان کو قتل کر دیا گیا۔

جواب

یہ ایک مشہور اور غالبا متنازعہ شخصیت ہیں۔
ان کے صحابی ہونے یا نہ ہونے کی بھی طویل بحث ہے۔
ابن سعد (رحمہ اللہ) کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک ایک شہر کو لیتے ہیں اور وہاں پر آباد ہونے والے لوگوں کے طبقات کی ترتیب سے چلتے ہیں۔ پہلے اولین دور میں ایمان لانے والے صحابہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر بعد کے صحابہ کا، پھر تابعین میں بڑی عمر کے لوگوں کا، پھر چھوٹی عمر کے تابعین کا اور اسی طرح آگے چلتے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان کی کتاب کا جائزہ لیں تو حجر بن عدی کا ذکر انہوں نے ’’طبقات الکوفیین‘‘ میں کیا ہے۔
اس کتاب کی تیسری جلد (حصہ ششم) کے شروع ہی میں آپ کو اہل کوفہ کے حالات مل جائیں گے۔
ابن سعد آغاز کوفہ میں آنے والے میں صحابہ کرام سے کرتے ہیں جن میں حضرت علی، سعد، سعید بن زید، عبداللہ بن مسعود، عمار بن یاسر اور خباب بن ارت رضی اللہ عنہم سر فہرست ہیں۔ یہ سب سابقون الاولون میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اور بھی بہت سے صحابہ کا ذکر کیا ہے مگر ان میں حجر بن عدی کا نام نہیں ہے۔ صحابہ کے بعد وہ تابعین کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے نو طبقات بیان کرتے ہیں۔
ان میں پہلا طبقہ ان تابعین کا ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ سے علم حاصل کیا ہے۔
ان میں حجر بن عدی کا نام ہے اور ان کا ذکر ص 147 دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سعد انہیں صحابہ کرام میں شمار نہیں کرتے بلکہ تابعین میں کرتے ہیں۔
ابن سعد لکھتے ہیں:
“حجر نے جاہلیت کا زمانہ بھی پایا اور اسلام کا بھی۔
بعض علم کے راویوں نے کہا ہے کہ یہ اپنے بھائی ہانی بن عدی کے ساتھ ایک وفد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔‘‘
ابن سعد نے یہاں یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سے ’’علم کے راوی‘‘ ہیں جنہوں نے یہ بات کہی ہے؟ کیا وہ لوگ قابل اعتماد ہیں یا نہیں؟ کہیں وہ لوگ کسی خاص صحابی کے بارے میں متعصب تو نہیں؟ لیکن ابن سعد نے خود ان راویوں کی بات کو مسترد کر کے حجر بن عدی کو تابعین میں شمار کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر بن عدی کے صحابی ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ مشکوک ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم: حجر بن عدی کے بارے دو موقف ہیں۔
امام حاکم، ابن عبدالبر، ابن أثیر، حافظ ذہبی کے ہاں صحابی ہیں جبکہ امام بخاری،امام أبو حاتم الرازی، امام ابن حبان،خلیفہ بن خیاط کے نزدیک تابعی ہیں
حافظ ابن حجر نے کہا:

ﺃﻣﺎ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻭاﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻭﺧﻠﻴﻔﺔ ﺑﻦ ﺧﻴﺎﻁ ( تاريخ دمشق :12/ 212، 231) ﻭاﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﺬﻛﺮﻭﻩ ﻓﻲ اﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ.
ﻭﻛﺬا ﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻓﻲ اﻟﻄﺒﻘﺔ اﻷﻭﻟﻰ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻜﻮﻓﺔ، ﻓﺈﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻇﻨﻪ ﺁﺧﺮ، ﻭﺇﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺫﻫﻞ۔(ابن سعد کے دونوں طرح کے گمان کے لئے دیکھے تاریخ دمشق:12/ 210)

ابن سعد نے کہا:

ﻭﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻣﻌﺮﻭﻓﺎ، طبقات ابن سعد :6/ 244
الإصابة في تمييز الصحابة:2/ 33 ،التاريخ الكبير:3/ 72 ،الجرح والتعدیل:3/ 266 ،الثقات لابن حبان:4/ 176

امام دارقطنی کا رجحان بھی تابعی ہونے کی طرف ہے( تاریخ دمشق: 12/ 211)
امام یعقوب بن سفیان الفسوی کے نزدیک بھی تابعی ہیں
تاریخ دمشق:12/ 213،بغية الطلب :5/ 2112
ان کے صحابی ہونے پر کوئی قوی اور صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔
جن کتب احادیث میں صحابہ کی اکٹھی مرویات بیان ہوئی ہیں ان میں بھی ان کا ذکر نہیں ملتا جیسے مسند أحمد بن حنبل، الآحاد والمثانی،المعجم الکبیر للطبرانی،معجم الصحابة للبغوي وغیرہ۔
باقی اس طرح کے اختلاف اگر کوئی فیصلہ نہیں کر پائیں راجح ومرجوح کے اعتبار سے تو توقف اختیار کرنا چاہیے ہے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ