سوال (2828)
جامع ترمذی کی حدیث نمبر: 3620 میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ راھب کہتا ہے کہ جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو، اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں۔
اس میں دو باتوں کی وضاحت درکار ہے، ایک بات یہ ہے کہ اس حدیث کی سند کے بارے دریافت کرنا تھا، دوسری بات یہ ہے کہ کیا حجر و شجر غیر الله کو سجدہ کر سکتے ہیں؟
جواب
یہ واقعہ کئی ایک کتب احادیث و سیر وتاریخ میں موجود ہے، بعض نے اسے قبول کیا ہے اور بعض نے اسے منکر جدا کہا ہے۔ اور اصلا یہ مرسل ہے، کیونکہ تب ابو موسی اشعری رضی الله عنہ موجود نہیں تھے، بعد میں کس سے سنا ہے کوئی دلیل و قرینہ موجود نہیں ہے سوائے احتمالات کے۔ یہ قبل از نبوت کا واقعہ ہے اور چھوٹی عمر میں پیش آنے والا واقعہ ہے اور درختوں کا جھکنا ادب واحترام اور تعظیم کے سبب مانا جائے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں اور یاد رکھیں بعد از نبوت شریعت اسلامیہ میں سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں رہا ہے نہ ہی کبھی کسی صحابی نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سجدہ کیا اور درخت جو ہیں وہ شرعی احکام و حدود کے مکلف نہیں ہیں۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کئی ایک معجزات ہیں جیسے درختوں اور پتھروں کا سلام کہنا، درخت کا ساتھ چل پڑنا، جانوروں کا ادب واحترام کے سبب۔ گردن جھکا دینا اور ساکن ہو جانا، غرض الله تعالى نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو رحمت کائنات صلی الله علیہ وسلم کی پہچان و تعارف کروا دیا ہوا تھا مختلف معجزات و واقعات سے یہی معلوم ہوتا ہے اور معجزہ صرف نبی و پیغمبر کے ساتھ خاص ہوتا ہے، اس سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی ہے اور ان معجزات کے ظہور کا مقصد رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور صداقت نبوت کو ثابت کرنا تھا۔
معاصر محققین سے الشیخ المحقق سعد الشثری اور اسی طرح دیگر اہل علم نے معلول کہا ہے۔
[دیکھیے مصنف ابن أبی شیبہ: 33894]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ