سوال (2013)

حاجی اور حافظ قرآن قیامت کے دن کتنے بندوں کی سفارش کریں گے؟

جواب

مجھے جو سمجھ آیا وہ یہ کہ حاجی اور حافظ قرآن کریم کے سفارش کرنے کے بارے پوچھا گیا ہے، تو عرض ہے کہ ہمارے علم کے مطابق قرآن وحدیث میں ایسی کوئی صحیح اور صریح دلیل موجود نہیں ہے، جس سے حاجی اور حافظ قرآن کا اپنے اقرباء کے لیے سفارش کرنا ثابت ہوتا ہو، البتہ حج مبرور کا ثواب جنت وغیرہ ہے، جو ثابت ہے اگر شرعی تقاضوں کے ساتھ حج کیا گیا ہو، اور حافظ قرآن صحیح العقیدہ باعمل فوت ہوا ہو تو اس کا مقام اور اس کے حق میں قرآن پاک کا سفارش کرنا صحیح مسلم، سنن دارمی وغیرہ کی مختلف روایات سے ثابت ہے، ایسے ہی روزہ، شہید اور سب سے بڑی سفارش نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سفارش ہے، ان سب کا سفارش کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اور جسے رب العالمین اجازت دیں گے، اس کی سفارش قبول ہو گی، ابھی تک کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
رب العالمین ہمیں کتاب وسنت کی روشنی میں کہنے ، سننے اور ایمان وعمل بجا لانے کی توفیق عطا فرمائیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اس طرح قرآن پڑھا کہ اس پر حاوی ہو گیا (یعنی بکثرت پڑھا) اس (قرآن) کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام سمجھا الله تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے خاندان سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی تھی۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اس کی سند صحیح نہیں ہے، حفص بن سلیمان، ابو عمر براز کوفی کو حدیث میں ضعیف سمجھا گیا ہے، اس کی سند سخت ضعیف ہے۔
[سنن ترمذي. كتاب ثواب القرآن باب: ما جاء فى فضل قارئ القرآن حديث رقم: 2904 واخرجه ابن ماجه، كتاب السنة، باب فضل من تعلم القرآن علمه حديث رقم: 216]
حفص بن سلیمان متروک الحدیث ہے اور اس کا شیخ مجہول ہے۔
[مشكاة المصابيح 2141: التعليق الرغيب 210/2]
حاجی چار سو آدمیوں کی سفارش کرے گا، اس بارے ایک حدیث کنز العمال: 5/14 رقم: (1184) میں موجود ہے:
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے حاجی اپنے گھرانے کے چار سو آدمیوں کے لیے شفاعت کرے گا اور وہ گناہوں سے ایسے نکل جائے گا جیسا کہ اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ [مسند بزار]
یہی حدیث حافظ المنذری نے الترغیب والترہیب میں ذکر کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی کا نام نہیں لیا گیا یعنی مجہول ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے، جس میں شہید فی سبیل الله تعالى کے لیے عدد کی صراحت ملتی ہے، اس لیے اس کے متن میں نکارت ہے اور روایت موضوع ہے۔
ایسی روایات کو عام نہیں کرنا چاہیے ہے، بس جو جامع،مانع جواب دینا چاہیے، اسے بیان کر دیں کہ سبھی لوگ بات کو سمجھنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں رکھتے ہیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

عموم میں جہاں نیک صالحین کی شفاعت کا ذکر اس میں حافظ قرآن حاجی سبھی شامل ہیں، باقی جہاں تک روایت کا تعلق وہ ضعیف ہے۔
واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث انیق الرحمٰن حفظہ اللہ

یہ دلیل تو نہیں ہے، محض آپ کا اجتہاد ہے، عموم میں تو کوئی بھی صالحین میں سے ہو سکتا ہے، سائل نے تو خاص دلیل کا پوچھا جو سرے سے موجود نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ