سوال (5064)

حج اور عمرہ کے لئے جانے والے لوگوں سے دعا کی درخواست کرنا مسنون ہے، چنانچہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو جب عمرہ میں جانے کی اجازت دی تو آپ نے فرمایا: “یا اخی لا تنسانا في دعائک “ اس کے علاوہ اور بھی متعد د روایات سے حاجی سے دعا اور استغفار کے لئے کہنا اور اس کی دعا اور شفاعت کا قبول ہونا ثابت ہے، اس لئے حجاج کرام سے دعاؤں کی درخواست کرنا چاہئے۔
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

حج کے لیے جو سفر کرتے ہیں، ان سے دعا کی درخواست کرنا مستحب ہے، خاص طور پر حج کے دوران کئی مواقع ایسے آتے ہیں، جہاں دعا کی قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دعا کی اپیل کرنا، مسافر یا حاجی سے دعا کی درخواست کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے، البتہ یہ بات سو فیصد یقینی نہیں کہ دعا قبول ہو چکی ہے، کیونکہ خود حاجی کے لیے بھی یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہوئی یا نہیں، ہاں، نبوی فرمانوں پر ایمان اور یقین ہونا چاہیے، مگر ممکن ہے کہ بعض شرائط پوری نہ ہوں یا چھوٹ جائیں۔ اچھا گمان اور امید رکھنا اچھی بات ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ خوش فہمی کا شکار نہ ہو جائے اور خود کو بڑا نہ سمجھے۔ یہ بات خود پسندی اور غرور پیدا کر سکتی ہے جو کہ نقصان دہ ہے۔
لہٰذا، دعا کی اپیل کرنا صحیح ہے اور اس میں امید رکھنی چاہیے، مگر یقین کامل رکھنا مناسب نہیں کیونکہ نہ حاجی جانتا ہے اور نہ ہم جان سکتے ہیں کہ کس کی دعا قبول ہوئی ہے یا نہیں۔ جیسے کہ باقی عبادات میں بھی یہی اصول ہے، دعا کی قبولیت کا علم اللہ کے پاس ہے۔

ص156- أرشيف ملتقى أهل الحديث اللهم اغفر للحاج ولمن استغفر له الحاج المكتبة الشاملة الحديثة https://share.google/5AXoS9rjTsf241s63

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

حج پر جانے والے سے دعا کروانا جائز ہے۔
اور اس بارے میں جو خاص روایت ہے وہ ضعیف ہے جس کی وضاحت ہم آخر پر کریں گے، اب آپ اس کے جائز و مستحب ہونے پر حدیث ملاحظہ فرمائیں:
ثقہ تابعی صفوان بن عبد الله بن صفوان رحمه الله تعالى جن کے نکاح میں سیدنا ابو درداء رضی الله عنہ کی بیٹی درداء تھیں وہ کہتے ہیں:

قَدِمْتُ الشَّامَ فَأَتَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ فَقَالَتْ أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ،

میں شام آیا تو میں سیدنا ابودرداء رضی الله عنہ کے گھر آیا، لیکن وہ نہیں ملے، البتہ میری ملاقات أم درداء رضی الله عنها سے ہوئی تو انہوں نے کہا: کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ أم درداء رضى الله عنها کہتی ہیں: پھر ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا کیونکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب( قبول ) ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے مثل عطا ہو۔

صحیح مسلم:بَابُ فَضْلِ الدُّعَاءِ لِلْمُسْلِمِينَ بِظَهْرِ الْغَيْبِ (2733) واللفظ له،مسند أحمد بن حنبل: (21703، 27559) مسند عبد بن حميد:(201) ،الأدب المفرد للبخارى:(625) ﺑﺎﺏ ﺩﻋﺎء اﻷﺥ ﺑﻈﻬﺮ اﻟﻐﻴﺐ،سنن ابن ماجہ:(2895)ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺩﻋﺎء اﻟﺤﺎﺝ،الدعوات الكبير للبيهقى:(651)ﺑﺎﺏ اﻟﺪﻋﺎء ﺑﻈﻬﺮ اﻟﻐﻴﺐ، أخبار مكة للفاكهي:(881)1/ 409 ﺫﻛﺮ اﻟﻤﺘﺎﺑﻌﺔ ﺑﻴﻦ اﻟﺤﺞ ﻭاﻟﻌﻤﺮﺓ، ﻭﻓﻀﻞ ﺫﻟﻚ

امام ابن حبان نے حدیث أبو درداء رضی الله عنہ پر یوں عنوان قائم کیا ہے۔

ﺫﻛﺮ اﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﻛﺜﺮﺓ ﺩﻋﺎء اﻟﻤﺮء ﻷﺧﻴﻪ ﺑﻈﻬﺮ اﻟﻐﻴﺐ ﺭﺟﺎء اﻹﺟﺎﺑﺔ ﻟﻬﻤﺎ ﺑﻪ، صحیح ابن حبان:(989)

(1): اس روایت سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین کے اندر کس قدر حرص ہوتی تھی دوسروں سے دعا کی درخواست صرف اس لئیے کرنے کہ اس دعا کی قبولیت کی گارنٹی خود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دی تھی۔
(2): سلف صالحین کا حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر پختہ ایمان کا بیان۔
(3): سلف صالحین رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث بالاتفاق حجت تھی اس کا منکر زمانہ سلف صالحین میں سلف صالحین سے کوئی ہرگز نہیں ملتا ہے۔
(4): سلف صالحین رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے ساتھ استدلال کرتے اور اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے تھے۔
(5): رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی صفت مبشر کا ذکر خیر۔
(6): سلف صالحین اسی بات کو بیان اور ذکر کرتے جس کا دنیا وآخرت میں فائدہ ہوتا جیسا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ راوی نے صرف مقصد کی بات ذکر کی اور باقی گھر میں ہوئی گفتگو کو بیان نہیں کیا اور یہ عین رب العالمین کی سنت ہے اس کا ثبوت قرآن کریم کی جامعیت ہے کہ اس مبارک کتاب میں رب العالمین نے صرف مقصد وخیر کی باتوں کو ہی جامع الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
(7): سلف صالحین کے نزدیک دعا کی اہمیت وفضیلت کا ہونا کس قدر واضح ہے مگر ان سے اجتماعی دعا کا تصور سواے بارش کی دعا کے نہیں ملتا ہے اور یہی إيمان بالله،ايمان بالرسالة کا تقاضا ہے۔ یعنی وہ صحیح معنوں میں دین اسلام پر عمل پیرا ہونے والے تھے اور سنت کے سب سے زیادہ حریص اور قریب تھے رب العالمین ان سب سے راضی ہوں۔
(8): سفر حج وعمرہ پر جانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے غیر حاضر مسلمین، مسلمات کے لئے بھی خوب دعائیں کرے اور ذرہ بھر بھی بخل سے کام نہ لیں کہ یوں اس کے حق میں زیادہ خیر وبرکت آے گی اور اس کی دعا کی قبولیت کے زیادہ چانس ہوں گے۔
(9): حج وعمرہ کرنے والے سے دعا کی درخواست کرنا بالکل جائز ہے کیونکہ وہاں حرم کعبہ میں بہت سی خیر وبرکات اور عظمت والے مقام ہیں اور وہاں ہر مومن کے ایمان کی کیفیت بالکل مختلف اور عجیب سی ہوتی ہے۔
(10): اس حدیث مبارک کی روشنی میں ہمیں دوسرے مسلمان بھائیوں،بہنوں کے لئیے دعائیں کثرت سے دعائیں کرنی چاہیے ہیں تا کہ ہماری کی ہوئی دعائیں بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت پا جائیں۔
اس حدیث مبارک سے مزید فوائد اخذ کیے جا سکتے ہیں مگر ہم اب اس روایت کی مختصر سی وضاحت کر دیں جو ضعیف ہے۔
پہلے سند ومتن:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: اﺳﺘﺄﺫﻧﺖ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﻌﻤﺮﺓ، ﻓﺄﺫﻥ ﻟﻲ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻻ ﺗﻨﺴﻨﺎ ﻳﺎ ﺃﺧﻲ ﻣﻦ ﺩﻋﺎﺋﻚ، ﻓﻘﺎﻝ ﻛﻠﻤﺔ ﻣﺎ ﻳﺴﺮﻧﻲ ﺃﻥ ﻟﻲ ﺑﻬﺎ اﻟﺪﻧﻴﺎ، ﻗﺎﻝ ﺷﻌﺒﺔ، ﺛﻢ ﻟﻘﻴﺖ ﻋﺎﺻﻤﺎ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﻟﻤﺪﻳﻨﺔ، ﻓﺤﺪﺛﻨﻴﻪ، ﻭﻗﺎﻝ: ﺃﺷﺮﻛﻨﺎ ﻳﺎ ﺃﺧﻲ ﻓﻲ ﺩﻋﺎﺋﻚ، سنن أبو داود:(1498) واللفظ له سنن ترمذی,:(3562)،مسند أحمد:(195)،مسند أبی داؤد الطیالسی:(10)

یہ روایت کئ کتب احادیث وغیرہ میں موجود ہے۔
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور معنی صحیح ہے جس کی تائید حدیث مسلم میں موجود الفاظ سے ہوتی ہے۔
وجہ ضعف: عاصم بن عبيد الله ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ المدنی راوی کو کبار ائمہ محدثین ونقاد نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام سفیان بن عینیہ کہتے ہیں:

ﻛﺎﻥ اﻷﺷﻴﺎﺥ ﻳﺘﻘﻮﻥ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ،
العلل ومعرفة الرجال برواية ابنه عبد الله:(2038) 2/ 210

البتہ اس جرح کی دوسری جگہ تخصیص کر دی گئی ہے العلل ومعرفة الرجال:(4923)
امام دارقطنی نے کہا:

ﻳﺘﺮﻙ ﻫﻮ ﻣﻐﻔﻞ، سؤالات البرقانی:(339)

امام یحیی بن معین نے کہا:

ﻭﻓﻠﻴﺢ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻭاﺑﻦ ﻋﻘﻴﻞ ﻭﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺤﺪﻳﺜﻬﻢ،
تاریخ ابن معین رواية الدوري: (1212)

اور کہا:

ﺿﻌﻴﻒ ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺤﺪﻳﺜﻪ ﻭﻫﻮ اﺿﻌﻒ ﻣﻦ ﺳﻬﻴﻞ ﻭاﻟﻌﻼء ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، الجرح والتعديل:6/ 347

امام ابو حاتم الرازی نے کہا:

ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻀﻄﺮﺏ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﻌﺘﻤﺪ ﻋﻠﻴﻪ، الجرح والتعديل:6/ 348

اس راوی پر تفصیل کتب تراجم میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ حاجی سے دعا کروانے کے متعلق کوئی صحیح روایت ہو میرے علم میں نہیں ہے بس ہم پر لازم ہے کہ ہم صحیح احادیث والی پر اکتفا کریں اور غیر ثابت من گھڑت روایات سے دور رہیں ورنہ یہ عمل بہت بڑی ہلاکت کا باعث ہے اور آخرت میں خسارے کا ذریعہ ہے۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ