سوال (4350)

حج میں قربانی کا اہم مسئلہ
(1): ایک قربانی وہ ہے جو صاحب نصاب مقیم شخص پر واجب ہوتی ہے، خواہ حج کرنے جائے یا نہ جائے، اگر حاجی صاحب نصاب ہے اور قربانی کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں مقیم ہے، یعنی منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو یا مستقل وہیں رہتا ہے، تو اس پر یہ قربانی واجب ہے، اور اسے اختیار ہے کہ چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا انتظام کرے، یا اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے، یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے۔ البتہ منی میں قربانی کرنے کا ثواب پوری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے۔ مگر آج کل رش کی وجہ سے منی میں خود سے پہلے والا ماحول نہیں ملتا، اب حدود حرم میں مذبح خانے بنائے گئے ہیں۔
(2): دوسری قربانی سے مراد” دم شکر ہے۔ یہ حج قرآن اور حج تمتع کرنے والوں پر ایام نحر ( ذی الحج کی 12,11,10 تاریخوں) میں حلق (سرمنڈوانے ) یا پورے سر کے بال کٹوانے سے پہلے منی یا حدود حرم میں واجب ہے۔ حج افراد کرنے والوں پر یہ قربانی واجب نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ حج افراد کی صورت میں مقیم اور صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صرف پہلی قسم کی قربانی واجب ہوگی، اور اگر مقیم نہ ہو یا استطاعت نہ ہو تو کچھ بھی واجب نہیں ہوگا۔ حج قرآن اور حج تمتع والوں پر مقیم اور صاحب نصاب ہونے کی صورت میں دونوں قسم کی قربانیاں لازم ہوں گی، ورنہ صرف دوسری قسم یعنی دم شکر لازم ہو گی۔
کیا یہ فتویٰ درست ہے؟

جواب

ہمارے نزدیک حج پر حاجی قربانی کرتا ہے، وہ ہدی کہلاتی ہے، غیر حاجی جو کرتا ہے، وہ اضحیہ ہوتی ہے، حاجی پر اضحیہ نہیں ہے، حاجی کے ذمے حج قران اور تمتع والا جو قربانی کرتا ہے، وہ قربانی اس کے ذمے ہے، ہمارے اعتبار سے یہ غیر ضروری فتوی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ