’’حج و قربانیاں اور حقوق العباد؛ بہنوں کی وراثت‘‘

حج اور قربانی دونوں ہی عظیم عباداتیں ہیں، لیکن ان دونوں عبادات کے بجا لانے والوں میں بکثرت ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے حقوق العباد میں زیادتیاں کر رکھی ہوتیں ہیں، حالانکہ علماء کا اجماع ہے کہ محض عبادات اور زبانی توبہ سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے۔ اگر کسی کے ذمے لوگوں کے حقوق ہیں، وہ جتنی بھی نیکیاں کر لے؛ حج اور قربانی کی کثرت سے نامۂ اعمال بھر لے پھر بھی لوگوں پر کی گئی زیادتی معاف نہیں ہوں گی۔ بلکہ یہ ساری نیکیاں وہ دوسروں کو دینے کے لیے کر رہا ہے، یہاں کسی کا حق دبا رکھا ہے تو روزِ قیامت جہاں درہم دینار اور روپیہ پیسہ نہیں ہو گا وہاں بدلے میں نیکیاں دی جائیں گی یا برائیاں اٹھائی جائیں گی ۔

فرمان نبوی ﷺ ہے : ’’جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہئے کہ اس سے (اس دنیا میں) معاملہ حل کر لے۔ اس لیے کہ آخرت میں درہم دینار نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے حساب درست کر لے کہ اُس کی نیکیوں میں سے اس کے بھائی کو حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔‘‘ [صحیح بخاري : 6534]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علماء کا اجماع ہے کہ حج سے حقوق العباد ساقط یا معاف نہیں ہوتے۔‘‘
[جامع المسائل- ط عطاءات العلم ٤/‏١٢٣]

ناصر الدین بیضاوی نقل کرتے ہیں: ’’رہے حقوق العباد، تو علماء کا اجماع ہے کہ وہ نہ تو حج سے معاف ہوتے ہیں نہ ہجرت سے۔‘‘
[تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة ١/‏٦٦]

لہذا جن بھائیوں نے بہنوں کا حقِ وراثت دبا کر یا معاف کروا کر حج اور قربانیاں کی ہیں وہ روزِ قیامت یہ سارا ثواب بہنوں کو دینے کے لیے تیار رہیں، بلکہ مزید بھی زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے رہیں تاکہ روزِ محشر بہنوں سے حساب مکمل کر کے بھی اتنی نیکیاں بچ جائیں جو جنت میں لے جا سکیں ۔ جیسا کہ علماء کہتے ہیں: ’’حقوق العباد سے توبہ میں تمام یہ ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر لے تاکہ جن کے حقوق دینے ہیں انہیں نیکیاں دے کر حساب پورا کرنے کے بعد بھی اتنی بچ جائیں جن کے ساتھ جنت میں جا سکے۔‘‘
[(لوامع الأنوار البهية ١/‏٣٩٩ — السفاريني (ت ١١٨٨)]

اس میں بہنوں کے لیے تسلی ہے کہ اگر بھائیوں نے حق دبا رکھا ہے یا معاف کروا لیا ہے تو پریشانی نہ ہوں، وہ یہ نیکیاں آپ کے لیے ہی کر رہے ہیں، کل کو ان کے نامۂ اعمال سے یہ نیکیاں آپ کی طرف ہی منتقل ہونے والی ہیں۔. إن شاء الله.

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ