سوال (1443)

سائلہ کہتی ہیں کہ میرا خاوند ڈپریشن کا شکار ہے اور عرصہ کئی سال سے علاج کروا رہا ہے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جب تک دوائی استعمال کرتا رہے گا تو بہتری آئے گی جیسے ہی دوائی چھوڑ دے گا تو طبیعت بگڑ جائے گی لہذا دو ماہ پہلے میرے خاوند ڈپریشن کا شکار ہوئے اور مجھے طلاق دے دی ، اس کے بعد جیسے ہی طبیعت بحال ہوئی تو پوچھا آپ نے طلاق دی ہے تو کہتے مجھے یاد نہیں۔ لہذا قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں کہ طلاق واقع ہوئی ہے کہ نہیں ؟ (اور ساتھ ڈاکٹر کی رپورٹ بھی مفتی صاحب کو دی ہے اس وقت میرے شوہر انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ فاؤنٹین ہاؤس میں داخل ہیں)

جواب

صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ اس طلاق کے وقت شوہر کا ذہنی توازن درست نہ تھا، ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔ صحیح بخاری کے ترجمة الباب میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے:

“لیس لمجنون ولا لسکران طلاق”

’’دیوانے اور نشئ کی طلاق قابل اعتبار نہیں‘‘۔
اور ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ طلاق السکران والمستکره لیس بجائز.
” نشے والے اور مجبور شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی”۔
الغرض جب شدتِ مرض کی بنا پر آدمی کے ہوش حواس قائم نہ ہوں تو طلاق شمار نہیں ہوگی۔
عقل و شعور کی مضبوطی کی صورت میں ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ محل مسئلہ میں معاملہ برعکس ہے۔ بہر صورت رجوع کی گنجائش موجود ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ