سوال (1519)
شوہر نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں ، جبکہ بیوی تین اور چار ماہ سے حاملہ بھی ہے؟
جواب
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ تینوں واقع نہیں ہوں گی، بلکہ صرف ایک ہی شمار ہو گی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :
“كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً”.
[صحیح مسلم ،کتاب الطلاق ، باب طلاق الثلاث]
«عہدِ رسالت، سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں»
حالت حمل میں طلاق شرعا واقع ہو جاتی ہے اور اس کی عدت وضع حمل ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا، أَوْ حَامِلًا” (مسلم: 3659)
کہ “اسے حکم دو کہ وہ اس (مطلقہ بیوی) سے رجوع کرے، پھر اسے حالت طہر میں یا حالت حمل میں طلاق دے”۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران حمل دی گئی طلاق جائز اور مباح ہے۔
قرآن کریم میں حاملہ عورت کی عدت یہ بیان کی گئی ہے:
“وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ” [سورہ الطلاق:4]
«حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جنم دے لیں»
لہذا یہ طلاق کا پہلا یا دوسرا موقع ہے تو رجوع کرنے کا شرعی موقع موجود ہے۔
نوٹ:
حوالے میں کچھ سہو ہوا تھا شیخ محترم حفظہ اللہ نے وضاحت بھی کر دی تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصول ذکر کیا ہے ان دونوں (طہر اور حمل) حالتوں میں طلاق دی جاتی ہے۔
حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ