سوال

طلاق کے متعلق سوال ہے۔ایک شخص جو کہ نشے کا عادی تھا اس نے اپنی بیوی کو دو بار الگ الگ مجلس میں طلاق دی۔

اس کا کہنا یہ ہے کہ یہ دونوں بار مجھے بالکل ہوش و حواس نہیں تھا۔ یہ مسئلہ ہمارے قریب کسی کے گھر کا ہے، میں کل وہاں گیا تھا. لڑکے  نے حلفا کہا کہ مجھے بالکل شعور نہیں تھا جب طلاق دی۔

دوسرا لڑکی کے گھر والوں نے خلع کا کیس بھی کر رکھا ہے جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ان کے وکیل نے لڑکے کوتین نوٹس بھجوائے ہیں، بہر حال عدالت نے نکاح فسخ نہیں کیا۔

ایسی صورت میں رجوع ہوسکتا ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ارشادِ باری تعالی ہے: ’شیطان شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت و نفرت کو پروان چڑھانا چاہتا ہے‘۔ [المائدة:91]

بعض روایات میں آیا ہے کہ شراب ’ام الخبائث‘ یعنی تمام خباثتوں کی ماں اور برائیوں کی جڑ ہے، اس ایک گندگی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان مسلسل مصیبتوں اور برائیوں میں پھنستا جاتاہے۔ [المعجم الأوسط للطبراني:3158،  وضعفه الهيثمي في الزوائد:8172]

مزید یہ کہ شراب نوشی حرام ، اور قابلِ تعزیر جرم ہے۔ شراب پینے والا ایمان سے محروم  ہوجاتا ہے [بخاری:6772]، بلکہ شریعت میں شراب پینے پلانے والے، اس کو تیار کرنے والے، اس کو سپلائی کرنے والے، تمام لوگوں کو ملعون و مردود قرار دیا گیا ہے۔ [ترمذی:1295]

اس لیے ہم سائل سے گزارش کرتے ہیں کہ  اس گناہ کبیرہ سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے، اس لت سے جان چھڑانے کے لیے فوری عملی اقدام کریں۔ ورنہ یہ  انسان کے لیے ہر اعتبار سے تباہی ہی تباہی ہے۔

جہاں تک سوال کا تعلق ہے، تو شراب پینے اور نشہ کرنے والے انسان کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ نشہ اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ  وہ عقل و شعور سے عاری  اور حواس کھو بیٹھتا ہے ۔ ایسے انسان کی دی گئی  طلاق واقع نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں ہے:

[ياَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ][النساء: 43]

نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ تمہیں اپنا کہا، سمجھ آنا شروع ہوجائے۔

اس آیت سے اہلِ علم نے استدلال کیا ہے کہ نشے کی حالت میں انسان کو خود اپنے کہے کا بھی علم نہیں ہوتا، لہذا اس کی طرف سے ادا کردہ عبادات یا معاملات قابلِ قبول نہیں ہوتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان ذی شان بھی ہے:

“لا طلاق في إغلاق”. (سنن ابي داود:2193، سنن ابن ماجہ:2046،  وحسنه الألباني في الإرواء:2047)

جب انسان کے ہوش وحواس قائم نہ ہوں، تو طلاق نہیں ہوتی۔

صحابہ کرام میں سے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  بھی صراحت کے ساتھ فتوی موجود ہے کہ نشے، جنون  وغیرہ کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔ [بخاری 7/42]

لہذا اگر دلائل و قرائن سے یہ بات ثابت ہوجائے یعنی اس کے گھر والے، اس کی بیوی، اس کے بہن بھائی اور والدین اس بات کی تصدیق کریں کہ یہ آدمی واقعی نشہ کرتا ہے۔ اور اس نے نشے کی حالت میں ہی طلاق دی ہے اور طلاق کے وقت اس کے ہوش و حواس قائم نہیں تھے۔ تو پھر اس کا مجنون والا حکم ہی ہوگا۔

چونکہ سوال میں یہ بات واضح ہے کہ طلاق دینے والا ہوش و حواس میں نہیں تھا۔ لہذا صورت مسؤلہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ:‏‏‏‏ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ،‏‏‏‏ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ،‏‏‏‏ وَعَنِ المجنونِ حَتَّى يَعْقِلَ”. [سنن الترمذی: 1423]

”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں  ( یعنی قابل مواخذہ نہیں ہیں )  : سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہو جائے، اور دیوانہ جب تک کہ سمجھ بوجھ والا نہ ہو جائے“۔

باقی خلع کے حوالے سے یہ ہے کہ جب تک عدالت خلع کا فیصلہ نہ کردے، تب تک خلع نہیں ہوتا ہے۔ عدالت نے ابھی تک  فسخ نکاح نہیں کیا اس لیے نکاح ابھی تک قائم ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ