سوال (3395)
تشہد کی حالت میں انگلی کا اشارہ سلام پھیرنے تک کرتے رہنا، کیا یہ درست ہے؟
جواب
تشہد کے آغاز سے لے کر آخر تک انگلی کو حرکت دیتے رہنا اور کھڑا رکھنا دونوں ثابت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی سبابہ انگلی کو کھڑا کرکے اس کے ساتھ اشارہ کرتے، لیکن اسے حرکت نہیں دیتے تھے نیز فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ انگلی شیطان کو بھگاتی ہے. اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے.
[العلل للدارقطنی: 2899.سندہ حسن]
انگلی کو حرکت دیتے رہنے کی دلیل بھی موجود ہے۔
[سنن نسائی: 890. سندہ صحیح]
انگلی کو خم دینا بھی ثابت ہے۔
[ابوداود: 991، سندہ حسن]
انگوٹھے اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دائرہ بنانا ثابت ہے۔
[ابن ماجہ: 912 ، سندہ صحیح]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
العلل للدارقطنی :13/ 8،9(2899) کی یہ ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت علی الراجح ضعیف ہے۔ یہی روایت مسند أحمد بن حنبل: (6000) میں موجود ہے، مگر سندا ضعیف ہے۔
ملاحظہ کریں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺰﺑﻴﺮﻱ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺇﺫا ﺟﻠﺲ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ، ﻭﺃﺷﺎﺭ ﺑﺈﺻﺒﻌﻪ، ﻭﺃﺗﺒﻌﻬﺎ ﺑﺼﺮﻩ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ” ﻟﻬﻲ ﺃﺷﺪ ﻋﻠﻰ اﻟﺸﻴﻄﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﺤﺪﻳﺪ ” ﻳﻌﻨﻲ اﻟﺴﺒﺎﺑﺔ
کثیر بن زید الأسلمی راوی نافع سے روایت کرنے میں تفرد رکھتا ہے جبکہ امام نافع کے کبار ثقات تلامذہ اس روایت کو بیان نہیں کرتے ہیں.
امام بزار نے اس روایت کی علت یوں بیان کی ہے۔
ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻻ ﻧﻌﻠﻢ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﺇﻻ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻭﻻ ﻧﻌﻠﻢ ﺃﺳﻨﺪ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﺇﻻ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ
[مسند بزار: 6917]
أطراف الغرائب والأفراد:3/ 508(3401) میں نافع عن ابن عمر روایت کے بعد ہے۔
ﻏﺮﻳﺐ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ.
ﺗﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻋﻨﻪ ﺑﻬﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ.
حافظ مغلطائی اس روایت کے ضعف کے بارے یوں وضاحت کرتے ہیں۔
کہا:
ﻭﻋﻨﺪ ﺃﺣﻤﺪ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻭﻓﻴﻪ ﺿﻌﻒ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻋﻨﻪ: ” ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺟﻠﺲ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ ﻭﺃﺷﺎﺭ ﺑﺈﺻﺒﻌﻪ ﻭاﺗﺒﻌﻬﻤﺎ ﺑﺼﺮﻩ…….
[شرح سنن ابن ماجہ لمغلطائى:ص:1549]
یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے جسے ثقات حفاظ نے ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے
ملاحظہ فرمائیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ” ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺟﻠﺲ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ، ﻭﺭﻓﻊ ﺃﺻﺒﻌﻪ اﻟﻴﻤﻨﻰ اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻲ اﻹﺑﻬﺎﻡ، ﻓﺪﻋﺎ ﺑﻬﺎ، ﻭﻳﺪﻩ اﻟﻴﺴﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻪ ، ﺑﺎﺳﻄﻬﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ
[مسند أحمد بن حنبل : 6348 سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ، ﻭاﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ، ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻗﺎﻟﻮا: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺟﻠﺲ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ، ﻭﺭﻓﻊ ﺇﺻﺒﻌﻪ اﻟﻴﻤﻨﻰ اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻲ اﻹﺑﻬﺎﻡ، ﻓﻴﺪﻋﻮ ﺑﻬﺎ، ﻭاﻟﻴﺴﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻪ ﺑﺎﺳﻄﻬﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ
[سنن ابن ماجه : 913 صحیح]
ﻭﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺭاﻓﻊ، ﻭﻋﺒﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ – ﻗﺎﻝ ﻋﺒﺪ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ، ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺭاﻓﻊ: – ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺟﻠﺲ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ، ﻭﺭﻓﻊ ﺇﺻﺒﻌﻪ اﻟﻴﻤﻨﻰ اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻲ اﻹﺑﻬﺎﻡ، ﻓﺪﻋﺎ ﺑﻬﺎ ﻭﻳﺪﻩ اﻟﻴﺴﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻪ ﺑﺎﺳﻄﻬﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ
[صحیح مسلم :(580)114]
ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﻗﻌﺪ ﻓﻲ اﻟﺘﺸﻬﺪ ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻩ اﻟﻴﺴﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻪ اﻟﻴﺴﺮﻯ، ﻭﻭﺿﻊ ﻳﺪﻩ اﻟﻴﻤﻨﻰ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻪ اﻟﻴﻤﻨﻰ، ﻭﻋﻘﺪ ﺛﻼﺛﺔ ﻭﺧﻤﺴﻴﻦ، ﻭﺃﺷﺎﺭ ﺑﺎﻟﺴﺒﺎﺑﺔ
[صحیح مسلم: 580 ، 115]
ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﻤﻌﺎﻭﻱ ، ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺭﺁﻧﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻋﺒﺚ ﺑﺎﻟﺤﺼﺒﺎء ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ. ﻓﻠﻤﺎ اﻧﺼﺮﻑ ﻧﻬﺎﻧﻲ. ﻭﻗﺎﻝ: اﺻﻨﻊ ﻛﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻨﻊ. ﻓﻘﻠﺖ: ﻭﻛﻴﻒ ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻳﺼﻨﻊ؟ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺟﻠﺲ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﺿﻊ ﻛﻔﻪ اﻟﻴﻤﻨﻰ ﻋﻠﻰ ﻓﺨﺬﻩ اﻟﻴﻤﻨﻰ، ﻭﻗﺒﺾ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ ﻛﻠﻬﺎ. ﻭﺃﺷﺎﺭ ﺑﺈﺻﺒﻌﻪ اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻲ اﻹﺑﻬﺎﻡ…….
[موطا امام مالك :2/ 121صحيح،صحيح مسلم : (580) 116]
تو آپ دیکھ لیں امام نافع کے کبار ثقات حفاظ تلامذہ کثیر بن زید کی روایت کے مخالف روایت بیان کر رہے ہیں اور یہی روایت محفوظ وصحیح ہے۔
دوسری روایت يحركها والی تو یہ زیادت غیر محفوظ وشاذ ہے۔
موسوعہ حدیثیہ/ مسند أحمد بن حنبل کے محققین اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں:
ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ ﺩﻭﻥ ﻗﻮﻟﻪ: “ﻓﺮﺃﻳﺘﻪ ﻳﺤﺮﻛﻬﺎ ﻳﺪﻋﻮ ﺑﻬﺎ” ﻓﻬﻮ ﺷﺎﺫ اﻧﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﺯاﺋﺪﺓ- ﻭﻫﻮ اﺑﻦ ﻗﺪاﻣﺔ- ﻣﻦ ﺑﻴﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ ﻛﻤﺎ ﺳﻴﺄﺗﻲ ﻣﻔﺼﻼ۔۔۔۔۔۔
ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ: ﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺷﻲء ﻣﻦ اﻷﺧﺒﺎﺭ “ﻳﺤﺮﻛﻬﺎ” ﺇﻻ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺨﺒﺮ، ﺯاﺋﺪﺓ ﺫﻛﺮﻩ
گویا امام ابن خزیمہ علت کو واضح کر رہے ہیں۔
آگے موسوعہ حدیثیہ والے لکھتے ہیں:
ﻭﻗﻮﻟﻪ: “ﻓﺮﺃﻳﺘﻪ ﻳﺤﺮﻛﻬﺎ ﻳﺪﻋﻮ ﺑﻬﺎ” اﻧﻔﺮﺩ ﺑﻬﺎ ﺯاﺋﺪﺓ ﻣﻦ ﺑﻴﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﻋﺎﺻﻢ اﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ، ﻭﻫﻢ: ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ، ﻭﺷﻌﺒﺔ، ﻭﺳﻔﻴﺎﻥ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻭﺯﻫﻴﺮ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻭﺳﻔﻴﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ، ﻭﺳﻼﻡ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻢ ﺃﺑﻮ اﻷﺣﻮﺹ، ﻭﺑﺸﺮ ﺑﻦ اﻟﻤﻔﻀﻞ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺇﺩﺭﻳﺲ، ﻭﻗﻴﺲ ﺑﻦ اﻟﺮﺑﻴﻊ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﻮاﻧﺔ، ﻭﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ
اﻟﻮاﺳﻄﻲ.
اسی مقام پر آگے ان سب طرق کی تخریج موجود ہے۔
موسوعہ حدیثیہ/ مسند أحمد بن حنبل (18870) 31/ 160 تا162
علامہ وناقد شیخ مقبل بن ھادی رحمه الله تعالى کو پڑھیں وہ کہتے ہیں:
ﻫﺬااﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﻬﺬااﻟﺴﻨﺪﻇﺎﻫﺮﻩ اﻧﻪ ﺣﺴﻦ، ﻭﻟﻜﻦ ﻓﻴﻪ ﻟﻔﻈﺔ ﺷﺎﺫﺓﻭﻫﻲ ﺫﻛﺮ ﺗﺤﺮﻳﻚ اﻻﺻﺒﻊ، ﻓﻘﺪﺭﻭاﻩ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻣﻦ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ اﺣﺎﺩﻳﺜﻬﻢ اﻻ اﻻﺷﺎﺭﺓ، ﻭاﻟﺬﻱ ﺷﺬ ﺑﻬﺬﻩ اﻟﻠﻔﻈﺔ ﻫﻮاﻟﺜﻘﺔ اﻟﺜﺒﺖ ﺯاﺋﺪﺓ ﺑﻦ ﻗﺪاﻣﺔ ﻭﻗﺪ ﺧﺎﻟﻒ ﻣﻦ ﻫﻮ اﺭﺟﻊ ﻣﻨﻪ: ﺳﻔﻴﺎﻥ اﻟﺜﻮﺭﻱ ﻋﻨﺪ اﻟﻨﺴﺎﺋﻲ، ﻭﺷﻌﺒﺔﻋﻨﺪ اﺣﻤﺪ، ﻭﺳﻔﻴﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔﻋﻨﺪ اﻟﻨﺴﺎﺋﻲ، ﻭﺑﺸﺮﺑﻦ اﻟﻤﻔﻀﻞ ﻋﻨﺪ اﺑﻲ ﺩاﻭﺩ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪﻭﻋﻨﺪاﺣﻤﺪ، ﻭﺯﻫﻴﺮﺑﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻨﺪ اﺣﻤﺪ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﺩﺭﻳﺲ ﻋﻨﺪاﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ، ﻭﺧﺎﻟﺪاﻟﻄﺤﺎﻥ ﻋﻨﺪ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻓﻀﻴﻞ ﻋﻨﺪاﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ، ﻭاﺑﺎاﻻﺣﻮﺹ ﺳﻼﻡ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻢ ﻋﻨﺪ اﻟﻄﻴﺎﻟﺴﻲ، ﻭاﺑﺎﻋﻮاﻧﺔ ﻭﻏﻴﻼﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﻣﻊ ﺣﻜﺎﻩ ﻋﻨﻬﻤﺎ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ، ﻛﻞ ﻫﺆﻻءﻳﺮﻭﻭﻧﻪ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ ﺑﻪ ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺘﻬﻢ اﻟﺘﺤﺮﻳﻚ ﻓﻴﻌﺘﺒﺮ ﺯاﺋﺪﺓ ﺑﻦ ﻗﺪاﻣﺔ ﺷﺎﺫا، ﻭﻻﻳﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﺯﻳﺎﺩﺓ اﻟﺜﻘﺔ ﻣﻘﺒﻮﻟﺔ، ﻓﺎﻧﻪ ﻳﺸﺘﺮﻁ ﻓﻲ ﻗﺒﻮﻟﻬﺎ ﺃﻥ ﻻﻳﺨﺎﻟﻒ ﻣﻦ ﻫﻮ ﺃﻭﺛﻖ،ﻭﻗﺪ ﺑﺴﻄﺖ اﻟﻘﻮﻝ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﻣﻘﺪﻣﺔ”اﻻﻟﺰاﻣﺎﺕ ﻭاﻟﺘﺘﺒﻊ”. ﻭﻷﺧﻴﻨﺎ اﻟﻔﺎﺿﻞ اﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺣﻔﻈﻪ اﻟﻠﻪ ﺭﺳﺎﻟﺔ ﻓﻲ ﻫﺬا ﻭﻫﻲ ﻣﻔﻴﺪﺓ ﺟﺪا ﻟﻴﺲ ﻟﻬﺎ ﻧﻈﻴﺮ ﻓﻲ ﺑﺎﺑﻬﺎ
علی الراجح صرف انگلی سے اشارہ کرنا ہی سنت ہے اور اس بارے احادیث صحیح مسلم ،مسند أحمد وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں اور يحركها کی زیادت غیر محفوظ اور شاذ ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ