ہماری ازدواجی زندگی کے منفی معاشرتی رویے
ابو جی رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ پوچھا تھا کہ اسلام نے شوہر اور بیوی دونوں کے انتخاب میں دینداری کو بنیادی معیار بنایا ہے یہ دینداری کیا ہے؟
کہنے لگے سب سے پہلے تو ایک غلطی کا ازالہ کرو کہ عورت کے لیے دینداری ترجیحی معیار ہے باقی معیارات کی نفی نہیں کی گئی۔ دوم مرد کے لیے صرف دینداری نہیں بلکہ اس کا صاحب اخلاق ہونا بھی لازم ہے۔ مجھے پتا ہے تم اب یہ پوچھو گے کہ صاحب اخلاق ہونا صرف مرد کے لیے ہی کیوں ؟ عورت کو بھی تو اخلاق والا ہونا چاہیے نا۔ تو بات یہ پتر جی مرد کو اللہ نے قوام بنایا ہے تو قوام کا صاحب اخلاق ہونا لازم ہے ورنہ وہ گھر کا نظام نہیں چلا سکتا۔ اب مرد کے لیے لازم ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو صاحب اخلاق نہیں ہونا چاہیے۔ اخلاق تو ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔
پھر ایک عجیب سی بات کہی کہ
پتر جی مرد کا صاحب اخلاق ہونا اسے ازدواجی زندگی میں فٹبال بننے سے بچاتا یے۔ کیونکہ جب وہ مرد نہیں ہوتا تو پھر بیوی اور ماں کے درمیان فٹبال بنا دیا جاتا ہے۔ اور جو مرد صاحب اخلاق نہ ہو اسے فٹبال بننا چاہیے۔ کیونکہ اس کا اخلاق اسے سب سے پہلے رشتوں میں توازن قائم کرنا بتاتا ہے کہ ماں کو ماں کے مقام پر رکھنا ہے اور بیوی کو بیوی کے مقام پر۔ اور جو مرد صاحب اخلاق نہیں ہوتا وہ بیوی کو ماں کے مقام پر لے آتا ہے لہذا پھر جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے وہ الحفیظ والامان ۔۔۔۔۔۔
یہاں سب سے بڑا فساد اس وقت بپا ہو جاتا ہے جب ایک ماں اپنی بیٹی کو سسرال نام کی جگہ پر قبضہ کرنے اور تسلط حاصل کرنے کے گر سکھاتی ہے کہ آنے والی شوہر سمیت شوہر کے بہن بھائیوں کو صرف اپنا ماتحت یا اپنا بنانے کی کوشش کرتی ہے اور اس میں منفی اور مثبت سب حربے استعمال کرتی ہے۔
شوہر کے بھائیوں اور بہنوں تک کی زندگی میں مداخلت کرتی ہے۔ اور اگر سوء اتفاق ایک سے زائد بھائیوں کے ازدواجی زندگی جوائنٹ فیملی کی صورت میں ہو تو پھر مستقل بنیادوں پر ٹی ٹوینٹی کھیلا جاتا رہتا ہے۔
کاش کہ ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو سسرال پر قبضے کے بجائے سسرال کو اپنا بنانے کے گر سکھائیں جس میں محبت، ایثار ، خدمت شامل ہو۔
قبضہ مافیائی بیوی شوہر کو اپنا جاگیر سمجھتی ہے اور اس کے لیے اپنے ماں باپ اور بہن بھائی سب سے اہم ہوتے ہیں شوہر کے بہن بھائی کہیں ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات نظر انداز کروا دیے جاتے ہیں۔ کاش کہ مرد حقیقت میں مرد ہو بیوی کو بیوی کے مقام تک محدود رکھے۔ یہی قبضہ مافیائی بیوی بعض اوقات اپنے ہی شوہر کی ماں بننے کی بھی کوشش کرتی یے۔
ماں کی گود کا ذکر تو میں نے کر دیا کہ اب ماؤں کی اکثریت ڈالڈا ماؤں کی ہے لہذا گھر بسانا اور گھر پر قبضہ میں فرق کرنا ۔
مساجد کے منبر سے مخصوص قسم کے موضوعات نشر ہو رہے ہیں کاش کہ ان معاشرتی موضوعات پر بھی حالات حاضرہ کے تناظر میں مفصل گفتگو کی جائے۔
ہمارے سکول کالج یونیورسٹی اپنے طالب علم کو ٹریفک سگنلز کا پابند ہونا نہیں سکھا سکے تو ازدواجی زندگی کے گھمبیر اور پچیدہ مسائل کی تربیت کا تو صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے ہمارے عمومی تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں بیچ رہے ہیں بالخصوص دنیاوی تعلیمی ادارے۔ دینی تعلیمی ادارے بھی معاشرتی زندگی کے ان پہلوؤں کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دے رہے۔ پاکستان کی ایک مشہور زمانہ استاذہ کے تعلیمی و تربیتی نیٹ ورک نے خواتین کو سب سے بڑا سبق حقوق کے حصول کا دیا اور دین کے ابلاغ کے لیے گھروں سے باہر نکال لا کھڑا کیا۔ تو ایسے میں باقی مدارس کی کیا بات کی جائے خواتین کا ادارہ خواتین کو چوں چوں کا مربہ نصاب انہیں شوہر داری نہیں سکھا سکا البتہ ۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو شوہر داری کے فن سے آگاہ کریں جیسے ہماری ماں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی چاروں بیٹیوں زینب ام کلثوم رقیہ فاطمہ رضی اللہ عنہن کو سکھایا تھا۔ صحابیات کی سیرت پر مبنی کتب کا مطالعہ کریں تاکہ کچھ جان سکیں وگرنہ ۔
ساس بھی کبھی بہو تھی ۔۔۔ کے نام سے جو فحاشی اور بے حیائی اور ازدواجی معاشرتی انحراف ہماری ماؤں ، بہنوں بیٹیوں کو اپنے تسلط میں لے رہا ہے وہ بہت خوفناک ہے
شاہ فیض الابرار صدیقی